بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے بعد اس کا مطالبہ کرنا نیز اولاد پر باپ کے قرضے کی ادائیگی واجب ہے یا نہیں؟


سوال

زید نے گھریلو معاشی حالات  تنگ ہونے کی بنا  پہ  اہلِ  خانہ کو بتائے بغیر ایک شخص سے کپڑے کے کاروبار  کے لیے سود  پہ قرض لیا تھا،  لیکن کچھ عرصہ بعد  اس کاروبار میں نقصان ہوتا نظر آیا اور قرض کی ادائیگی کا وقت بھی قریب آتا گیا اس دوران زید  کے ایک بیٹے  عمرو  کو خبر ہوئی  کہ والد صاحب نے سود پہ قرض لیا ہے تو اسی وقت  عمرو نے والد صاحب کو اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ (اگر ابو مجھے پہلے سے پتا ہوتا کہ آپ نے سود پہ قرض لے کر کاروبار کیا ہے تو میں کبھی بھی آپ سے خرچہ پانی نہ لیتا اور آئندہ مجھے خرچہ مت دینا)  پھر وقت گزرنے کے ساتھ قرض کی ادائیگی کا وقت آگیا اور قرض خواہ  زید کے گھر قرض مانگنے آتے گئے،  جب  زید قرض بھرنے سے عاجز ہوئے تو  زید کے دوسرے بیٹے  بکر نے ذمہ لیا کہ میں قرض کی ادائیگی کروں گا، پھر  بکر نے کچھ قرض ادا کرنے کے بعد قرض بھرنے سے دست برداری کا اظہار کیا کہ اب مجھ سے قرض نہیں بھرا جائےگا؛ لہذا اس قرض کو دیگر بھائی بہن کے ذمے  لگایا جائے کہ سب آپس میں برابر برابر تقسیم کرکے قرض بھریں یا  پھر میرے حصہ سے بھرا ہوا  قرض بھی  مجھے دیگر بھائی بہن واپس لوٹائیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ :

(1) بکر نے جو قرض بھرا ہے کیا وہ اپنے بہن بھائی سے وصول کرنے کا حق دار ہے ؟

(2)   بکر نے پہلے  قرض کی ادائیگی  کا ذمہ لیا پھر بعد میں قرض بھرنے سے انکار کیا تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟

(3)  عمرو نے سود  کی معلومات ہوتے ہی دست برداری ظاہر کی تو کیا فہد بھی قرض خواہ کو والد کے قرض بھرنے کا ذمہ دار ہوگا ؟

جواب

1-  صورتِ مسئولہ میں جب کہ  بکر نے اپنے والد  زید  کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری لی تو اگر  زید  کے  کہنے پر  بکر نے یہ ذمہ داری لی تھی اور یہ کہا تھا کہ میں بعد میں یہ قرضہ اپنے والد صاحب سے وصول کروں گا تو اس صورت میں بکر اپنے والد  زید  سے اپنی ادا کی گئی رقم کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے، لیکن   جب کہ والد صاحب زندہ ہیں تو بہن بھائیوں سے وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

2-   بکر کا قرض ادا کرنے  کی ذمہ داری لینا اور بعد میں انکار کر دینا  شرعًا جائز ہے،  اس  لیے کہ کسی کے قرضے کی ادائیگی کا ذمہ لینا واجب نہیں ہے ۔

3-   عمرو نے والد کے سودی معاملات سے دست برداری ظاہر کی،  یہ اچھا عمل ہے، تاہم والد سے قطع تعلق درست نہیں ہوگا، اسی طرح والد کا قرض ادا کرنا چاہے تو اصل قرض ادا کرسکتاہے، لیکن والد کا قرض ادا کرنا  عمرو کے ذمے بھی  واجب نہیں ہے۔

لیکن اس صورت میں  زید  کی اولاد کو  چاہیے کہ جس سے سود پر قرضہ لیا ہے اس کی منت کریں اور اس کو  سود  کی حرمت کے بارے میں سمجھائیں؛ تاکہ وہ اپنا اصل قرضہ وصول کرنے پر تیار ہو جائے اورسود چھوڑ دے ، نیز  جلد از جلد جلد سب مل کر اپنے والد کا قرضہ چکادیں ؛ اس لیے کہ درحقیقت والد نے یہ قرضہ اپنے بچوں کی ضروریات پورا کرنے کے  لیے ہی لیا تھا ۔ 

«النتف في الفتاوى للسغدي» (2/ 757):

"أحدهما أن تكون على شَرط الْبَرَاءَة للْغَرِيم

وَالثَّانِي على غير شَرط الْبَرَاءَة

فإذا كَانَ على شَرط بَرَاءَة الْغَرِيم؛ فإنه يكون هُوَ الْحِوَالَة سَوَاء فَلَايرجع الْمَكْفُول لَهُ على الْغَرِيم إلا فِي الْوُجُوه الثَّلَاثَة الَّتِي ذَكرنَاهَا في كتاب الْحِوَالَة وهي أن يَمُوت الْكَفِيل أوْ يُنكر أوْ يفلس إلى آخر المسألة بالاختلاف."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں