بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی کھال ڈیم فنڈ میں دینا


سوال

آج کل کثرت سے ایک مسئلہ شئیر ہورہا ہے کہ قربانی کی کھالوں کی جو رقم وہ ڈیم بنانے کے لیے دی عطیہ(وقف) کی جائے،  آیا یہ رقم عطیہ کرنا جائز ہے? جب کہ ایک مولانا نے فتوی  دیا ہے کہ کھالوں کا حکم گوشت کی طرح ہے ، ضروری نہیں کہ صرف مسکین یا غریب کو ہی دیں, بلکہ  کسی کو بھی دے سکتے ہیں ، جلد از جلد مسئلہ کی وضاحت فرمادیں!

جواب

مذکورہ مولانا صاحب  نے جو مسئلہ بتایا ہے وہ  اپنی جگہ درست ہے کہ کھال کا حکم گوشت کی طرح ہے، البتہ اس میں تفصیل ہے جو مندرجہ ذیل ہے:

قربانی کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں: (1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا۔

تاہم اگر قربانی کی کھال ، قربانی کرنے والا یا اس کا وکیل نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردے  تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے، اور زکاۃ میں تملیک (فقیر کو مالک بنانا) شرط ہے ، اسے تعمیراتی کام میں لگانا درست نہیں ہے۔

قربانی  کرنے والا جب اپنے جانور کی کھال کسی ادارے کو دیتا ہے تو اس ادارے کے نمائندے اس قربانی کرنے والے کے وکیل بن جاتے ہیں، اور  ان پر لازم ہے کہ وہ  اس کو فروخت کرکے قربانی کرنے  والے کی طرف سے  اس کھال کی قیمت کو مستحقِ زکاۃ لوگوں کو  دے دیں ، اس کھال کی رقم سے تعمیراتی کام کرانا درست نہیں ہوتا.

لہذا جب ڈیم بنانے کے لیے  کھال دی جائے  تو جن کو دی وہ قربانی کرنے والوں کی طرف سے  وکیل ہوں گے اور وہ اسے فروخت کریں گے تو  رقم مستحقِ زکاۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہوجائے گا،  اور اس صدقہ کا مصرف وہی زکات والا ہے؛ لہذا تعمیراتی کاموں (ڈیم وغیرہ کی تعمیر) میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا.

یہی حکم قربانی کے گوشت کا بھی ہے کہ جب قربانی کا گوشت قیمتاً فروخت کردیا جائے تو اتنی رقم صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے۔باقی ڈیم فنڈ میں دیگر نفلی صدقات وعطیہ سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں