بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کی قضا سے متعلق جواب پر اشکال کا جواب


سوال

اگرقربانی کے ایام گزرجائیں اورصاحب نصاب شخص نے قربانی ہی نہ کی تواب قربانی کی قضاء تونہیں ہوتی البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے،بعض کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کرنا کافی ہے۔ اگرآپ نے گزشتہ سال کی قربانی کے بدلے ایک کے بجائے دو جانور ذبح کیے یا ایک کے بجائے دو حصے ملائے ہیں تو قربانی کی قضا نہیں ہوئی ہے۔شروع میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق عمل کریں گے تو گزشتہ واجب ادا ہوگا۔ (1)فقط واللہ اعلم درجِ بالا فتویٰ آپ کے دارالافتاء کا ہے۔ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہ فتویٰ کس حدیث پر مبنی ہے؟ حکمِ شریعت وہی ہوتا ہے جو قرآن اور سنت رسولﷺ سے ثابت ہو۔ کسی مفتی کو بغیر حوالۂ قرآن و حدیث فتویٰ دینے کا کوئی حق نہیں۔ اتباع رسول کی واجب ہےکسی اور کی نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ کے تمام کے تمام احکامات کی جزئیات کا ثبوت  صریح آیتِ قرآنیہ یا صریح حدیث سے طلب کرنا  کم فہمی اور نا واقفیت ہے، قرآن و حدیث  تمام احکامات کے تمام جزئیات کو محیط نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اصول بیان کیے گئے  ہیں، پھر ان کی شرح فقہاءِ امت  اپنے اجتہاد سے بیان فرماتے ہیں  اور اس اجتہاد کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان سے فرمایا کہ  مسائل کا حل کہاں سے نکالو گے؟ جواب دیا: قرآن پاک سے، پھر سوال فرمایا کہ  اگر اس کا حل قرآن میں نہ پاؤ تو؟ جواب دیا:  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت  سے اس کا حل نکالوں گا، پھر سوال فرمایا کہ  اگر سنت میں بھی نہ پاؤ تو؟  جواب دیا: اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اس کا رسول راضی ہے۔

خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے جواب سے خوش ہوئے اور اللہ پاک کی حمد بیان فرمائی اور ان کے اجتہاد کرنے والی بات کو رد نہیں فرمایا، اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا حل قرآن یا حدیث میں نہ  ملے تو اس میں اجتہاد کرنا نا صرف  یہ کہ درست ہے بلکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی سنت بھی ہے۔

بہرحال! قربانی کا اجمالی حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ کوثر  کی اس آیت میں دیا ہے:  فصل لربک وانحر اس آیت  کی تفسیر میں مفسرین نے وانحر کی تفسیر یوم النحر  ہی کی قربانی  سے کی ہے، اسی طرح قربانی کے اجمالی احکام احادیث میں بھی ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو آدمی گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (4/ 302)

عن أبي هريرة، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا"

اس کے علاوہ قربانی کے ایام کی تعیین بھی صحابہ کرام کے اقوال سے ثابت ہے، حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے ایام یوم النحر کے بعد مزید دو دن ہیں، یعنی ان تین دنوں میں قربانی کی جا سکتی ہے، اگر کسی شخص نے ان تین دنوں میں قربانی  کی تو قربانی درست ہو گئی، ان تین دنوں میں قربانی نہ کی تو اب  قربانی کے ایام باقی نہ رہے، ان تین دنوں کے بعد قربانی نہیں کی جا سکتی۔

اب جس شخص پر قربانی واجب ہو اور وہ ایام قربانی میں قربانی نہ کر سکا تو اس کی قضا کا طریقہ فقہاء امت نے بیان فرما دیا   ہے جیسا کہ آپ نے سوال میں نقل فرمایا ہے اور حکمت اس کی یہ ہے کہ قربانی کرنا مطلقاً ہر زمانے میں  باعثِ ثواب نہیں  بلکہ یہ حکم ایام نحر کے ساتھ خاص ہے جب ایامِ قربانی گزر جائیں تو قربانی کا حکم باقی نہ رہے گا، بلکہ جانور یا اس کی رقم صدقہ کرنے کا حکم ہو گا۔

 لہذا ہر مسئلہ کا حوالہ قرآن و حدیث سے تلاش کرنا اور فقہاء پر عدم اعتماد لائقِ تحسین نہیں، بلکہ مجتہدین کو اپنا محسن جاننا چاہیے کہ انہوں نے امت کی آسانی کے لیے مسائل کو بیان کر کے مرتب فرما دیا ۔   فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 320)

وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها۔

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (10/ 114)

عن معاذ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذا إلى اليمن قال له :« كيف تقضى إذا عرض لك قضاء؟ ». قال : أقضى بكتاب الله. قال :« فإن لم تجده فى كتاب الله؟ ». قال : أقضى بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال :« فإن لم تجده فى سنة رسول الله ». قال : أجتهد برأيى لا آلو. قال : فضرب بيده فى صدرى وقال :« الحمد لله الذى وفق رسول رسول الله لما يرضى رسول الله ».

تفسير مقاتل بن سليمان (4/ 880)

قال: فَصَلِّ لِرَبِّكَ يعني الصلوات الخمس وَانْحَرْ- 2- البدن يوم النحر فإن المشركين لا يصلون ولا يذبحون لله- عز وجل

فتح القدير للشوكاني (5/ 617)

وأخرج البيهقي في سننه عنه وانحر قال: يقول: واذبح يوم النحر.

مشكاة المصابيح (1/ 463)

وعن نافع أن ابن عمر قال: الأضحى يومان بعد يوم الأضحى. رواه مالك

الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (32/ 183)

وَعَنْ نَافِعٍ , أَنَّ عَبْدَ اللهِ ابْنَ عُمَرَ - رضي الله عنهما - قَالَ: الْأَضْحَى يَوْمَانِ بَعْدَ يَوْمِ الْأَضْحَى

مشكاة المصابيح (1/ 463)

وقال: وبلغني عن علي بن أبي طالب مثله۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں