بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کا وجوب


سوال

میں اور میرے والدین ایک ساتھ رہتے ہیں اور گھر کا سارا نظام والد صاحب ہی چلاتے ہیں، میں بھی ایک چھوٹی سی ملازمت کرتا ہوں، کیوں کہ گھر سےدور دوسرے شہر میں ملازمت کرتا ہوں، ایک پلاٹ قسطوں پر خریدا ہے, اپنا خرچہ اور اس کی قسط جمع کرتا ہوں, اور کبھی مہینے بعد جب گھر جاتا ہوں تو گھر والوں کے لیے فروٹ وغیرہ لے جاتا ہوں, اور بیوی کو کچھ خرچہ دیتا ہوں تو مشکل سے ہزار روپے بچتے ہیں، اور میرے پاس اپنا کوئی بیلنس نہیں، سال میں صرف ۱۰۰۰۰ بچا پاتاہوں اور وہ بھی اگر کبھی ۱۵یا ۲۰دن چھٹی جاؤ تو گھر کے خرچہ میں لگ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ میرے والد صاحب نے بنک میں میرے نام ۱۰۰۰۰۰ روپے رکھے ہیں اور ۲پلاٹ بھی خرید کر میرے نام کیے ہوئے ہیں، جن میں سے ان کی مرضی کے بغیر نہ پیسے نکال سکتا ہوں اور  نہ پلاٹ میں کچھ کر سکتا ہوں ۔میرے بیوی اور بچوں کا سارا خرچ والد صاحب ہی کرتے ہیں اور والد صاحب ہر سال قربانی کرتے ہیں اور قربانی پر گوشت وغیرہ کا کام ہر سال میں ہی کرتا ہوں۔ کیا ایسی صورت میں میرے اوپر والد صاحب کی قربانی کے علاوہ قربانی کرنا فرض ہے یا نہیں؟ یا والد صاحب کی قربانی باقی گھر والوں کے لیے کافی ہے؟

جواب

قربانی کے وجوب کی شرائط حسبِ ذیل ہیں:
(1) آزاد ہونا۔
(2) مسلمان ہونا۔

(3) بالغ ہونا۔

(4) ایام قربانی میں مقیم ہونا۔
(5) ایامِ قربانی میں بقدرِ نصاب مال (روپیہ پیسہ، سوناچاندی یا مالِ تجارت یا ضرورت سے زائد ساز وسامان) کا مالک ہونا۔

لہذا  جس شخص میں بھی یہ تمام شرائط پائی جائیں اس پرقربانی واجب ہے، گھر کے صرف ایک فرد کا قربانی کردینا کافی نہیں۔بلکہ گھر کی خواتین کے پاس بھی اگر اتنا مال ہو تو ان پر بھی قربانی واجب ہوگی۔

ایک لاکھ روپے اگر آپ کے والد صاحب نے آپ کو دے دیے ہیں (جیساکہ سوال سے ظاہر ہے) تو وہ آپ کی ملکیت ہیں، اسی طرح جو دوپلاٹ آپ کے نام کرائے ہیں، اگر باقاعدہ قبضہ دے کر آپ کے نام پر کردیے ہیں تو وہ آپ کی ملکیت ہیں، مذکورہ اموال کی مجموعی قیمت لگا کر پلاٹ کی جتنی قسطیں رواں سال واجب الادا ہیں، انہیں منہا کرکے اگر بقیہ رقم اور دیگر  ضرورت سے زائد مال  اور سامان کی مالیت ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی  مقدار کو پہنچتا ہو تو آپ پر بھی مستقل قربانی کرنا واجب ہوگی۔

اور اگر آپ کے والد صاحب نے ایک لاکھ روپے آپ کے پاس امانت رکھوائے ہیں، اور دو پلاٹ کسی مصلحت کی بنا پر صرف آپ کے نام کیے ہیں، آپ کو مالکانہ حقوق نہیں دیے تو آپ ان اشیاء کے مالک نہیں ہوں گے۔ بہرحال آپ نے جو پلاٹ خود قسطوں پر خریدا ہے وہ آپ کی بنیادی ضرورت سے زائد ہے؛ اس لیے ایک لاکھ اور دوپلاٹ آپ کی ملکیت نہ بھی ہوں تو آپ کے خرید کردہ پلاٹ  کی موجودہ قیمت لگاکر اس میں سے رواں سال کی قسطیں نکالنے کےبعد اگر آپ کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر بنیادی ضرورت سے زیادہ مال یا سامان موجود ہو تو آپ پر قربانی واجب ہوگی۔
''وإنما تجب علی حر مسلم مقیم موسرٍ''. (مجمع الأنهر ۴؍۱۶۶)

''وشرائطها: الإسلام والإقامة والیسار الذي یتعلق به وجوب صدقة الفطر''. (درمختار)

''بأن ملک مائتي درهم أو عرضاً یساویها...'' الخ۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، زکریا ۹؍۴۵۲، کراچی)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں