بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن پاک کی آیات کو ترتیب کے خلاف الٹا پڑھنا


سوال

 کیا قرآنِ پاک کی آیات الٹا پڑھنا درست ہے؟ 

جواب

قرآنِ مجید کی سورتوں میں آیات جس ترتیب پر ہیں، اسی ترتیب کے مطابق ہی ان کا پڑھنا ضروری ہے، اس کے خلاف پڑھنا ہرگز جائز نہیں، کیوں کہ قرآنِ کریم کی آیات کو خلافِ ترتیب پڑھنے میں مندرجہ ذیل قباحتیں ہیں:
۱…قرآنی آیات کی ترتیب توقیفی ہے،  اس کے توقیفی ہونے پر بہت سی نصوص دلالت کرتی ہیں اور مفسرین کا اس پر اجماع بھی منعقد ہے۔

 جیساکہ مناہل العرفان میں ہے:
”انعقد الاجماع علی أن ترتیب آیات القرآن الکریم علی هذا النمط الذي یداه الیوم بالمصاحف کان بتوقیف من النبي ﷺ عن الله تعالیٰ وأنه لامجال للرأي والاجتهاد فیه … ویأمر کتاب الوحي بکتابتها معیناًلهم السورة التي تکون فیها الآیة وموضع الآیة من هذه السورة“.  (ج:۱،ص:۳۴۷ دار الفکر بیروت)
ملا علی قاریؒ تحریر فرماتے ہیں:
”وکان یلقن أصحابه ویعلمهم ما ینزل علیه من القرآن علی الترتیب الذي هو الآن في مصاحفنا بتوقیف من جبریل علیه السلام إیاه علی ذلک وإعلامه عند نزول کل آیة أن هذه الآیة تکتب عقب آیة کذا في سورة کذا“. (مرقاة المفاتیح:۵/۱۰۹ بیروت)

علوم قرآن کے متعلق کتب میں سے شہرہ آفاق کتاب الاتقان میں ہے:

”الإجماع والنصوص المترادفة علی أن ترتیب الآیات توقیفي لاشبهة في ذلک“.  (۱/۶/سہیل اکیڈمی،لاہور)

ملاعلی قاری ؒ  تحریر فرماتے ہیں:
”علی أن ترتیب الآیات توقیفي وعلیه الإجماع والنصوص المترادفة“. (مرقات:4/1520 )

وفیہ ایضا:

’’ثم اتفقوا على أن ترتيب الآي توقيفي؛ لأنه كان آخر الآيات نزولاً {واتقوا يوماً ترجعون فيه إلى الله} [البقرة: 281] فأمره جبريل أن يضعها بين آيتي الربا والمداينة، ولذا حرم عكس ترتيبها‘‘. (حوالہ بالا 4/1522)

مذکورہ بالا حوالہ جات کے پیشِ نظر جب معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی ہیں تو ان توقیفی آیات کو خلافِ ترتیب پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہوا۔ جیساکہ مرقات کے سابقہ حوالے میں اس کی حرمت کی صراحت ہے۔

۲…باری تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم کو مربوط انداز میں نازل کیا گیا ہے کہ ہرایک آیت اگلی آیت سے معنیٰ کے اعتبار سے مربوط ہے اور ظاہر ہے کہ خلافِ ترتیب پڑھنے سے آیات کے معانی میں ضرور بضرور خلل لازم آئے گا جوکہ ناجائز ہے۔

۳…قرآنِ مجید جو انسانیت کے لیے تاقیامت ایسے معجزہ کے طور پر نازل کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے، پھر اس قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں اور خلافِ ترتیب پڑھنے سے ان وجوہِ اعجاز پر بھی ایک گونہ اثر پڑتا ہے۔

۴…قرآنِ کریم کی آیات باری تعالیٰ کی ان حکمتوں کے مطابق نازل شدہ ہیں  جن تک ہماری عقل کی رسائی ممکن نہیں اور یقیناً خلافِ ترتیب پڑھنے سے ان آیات کی بالترتیب نازل ہونے کی حکمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

 جیساکہ المتحف فی احکام المصحف میں ہے:

”قال النووی في التبیان: وأما قرأة السورة من آخرها إلی إولها فممنوع منعاً متأکداً؛ فإنه یذهب بعض ضروب الإعجاز ویزیل حکمة ترتیب الآیات … وأن مالکاً کان یعیبه ویقول: هذا عظیم“.  (۲/۳۱۲)

امام قرطبیؒ  رقم طراز ہیں:
”وأما ماروي عن ابن مسعود وابن عمر أنهما کرها أن یقرأ القرآن منکوساً وقالا: ذلک منکوس القلب فإنما عنیا بذلک من یقرأ السورة منکوسةً ویبتدئ من آخرها إلی أولها؛ لأن ذلک حرام محظور، ومن الناس من یتحاطی هذا في القرآن والشعر، لیذلل لسانه بذلک ویقدر علی الحفظ وهذا حظره الله تعالیٰ ومنعه في القرآن، لأنہ إفساد لسوره ومخالفة لما قصد بها“.  (الجامع لاحکام القرآن ۱/۴۴)

مذکورہ بالا قباحتوں کی وجہ سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کی سورتوں کو اس طرح الٹا پڑھنا کہ پہلے سب سے اخیر والی آیت پڑھے پھر اس سے پہلے والی اور پھر اس سے پہلے والی آیت  ممنوع اور ناجائز ہے، اگرچہ یہ کسی نیک مقصد یعنی قرآن کے حفظ میں مہارت پیدا کرنے یا دوسروں کو رغبت دلانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، لہذااس انداز وترتیب احتراز واجتناب ضروری ہے۔(از فتاوی جامعہ)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں