بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن پاک پڑھنے یا پڑھوانے کی نذر (منت) ماننے کا حکم، دیک یا بکرے کی نذر ماننے کی صورت میں قیمت صدقہ کرنے کا حکم، کنویں میں مقدس اوراق دفن کرنے کے بعد اس کنویں پر جوتیاں اتارنے کا حکم


سوال

١-قرآن پاک کی نذر ماننا کہ میرا فلاں کام ہو جاۓ تو میں قرآن پاک پڑھو گا یا پڑھواؤں گاکیا اس سے منت یا نذر منعقد ہو جاتی ہے ؟اس کو پورا کرنا کیسا ہے؟ نیز اگر خود پڑھنے کی نذر مانی ہو تو کیا دوسروں سے پڑھوانے کی گنجائش ہے ؟ ٢-اگر کسی نے نذر مانی ہو کہ میرا فلاں کام ہو جاۓ تو میں دیگ پکواؤں گا یا بکرا اللّٰہ کی راہ میں صدقہ کرونگا تو اگر اس کی بجاۓ اس کی قیمت صدقہ کر دی جاۓ توکیا صدقہ ادا ہو جاۓ گا ؟ ٣-مسجد میں ایک کنواں تھا جس میں قرآن پاک کے بوسیدہ اور پھٹے پرانے اوراق ڈال دیے گئے اور اس پر اینٹیں وغیرہ ڈال کر اوپر سے پلستر کر دیا گیا اب وہ جگہ جوتیاں اتارنے کی جگہ کے پاس تھی تو اب پلستر ہونے کے بعد لوگ اس جگہ پر جوتیاں اتارتے ہیں کیا یہ اس میں بے ادبی کا عنصر تو نہیں پایا جا رہا ؟ اگر ہاں ! تو اس سے بچنے کا کوئی طریقہ تجویز کر دے۔

جواب

)واضح رہے کہ نذر  لازم ہونے کی چند شرائط ہیں، جن کا پایا جانا شرعا  ضروری ہے:                                              

الف)نذر اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے ، پس غیر اللہ کے نام کی نذر صحیح نہیں۔

ب) نذر صرف عبادت کے  کام کے لیے ہو  ، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

ج) عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے : نماز ،روزہ ،حج ،قربانی وغیرہ ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی نذر بھی صحیح نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں تلاوتِ کلامِ الہی چوں کہ نماز میں فرض بھی ہے اور واجب بھی ہے؛ لہذا اگر کسی نے تلاوتِ قرآنِ مجید کی نذر مانی تو وہ منعقد ہوجائے گی،البتہ قرآن پڑھوانے کی نذر درست نہیں کیونکہ اس کی جنس میں سے کوئی عبادت فرض یا واجب نہیں۔اور اگر خود پڑھنے کی نذر مانی ہے تو دوسرے سے پڑھوانے سے نذر پوری نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 82)

(ومنها) أن يكون قربة فلا يصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول: لله - عز شأنه - علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا نذر في معصية الله تعالى

 (ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة...... ومن مشايخنا من أصل في هذا أصلا فقال: ما له أصل في الفروض يصح النذر به

فتاوی دار العلوم دیوبند:

ایک شخص نے نذر مانی نذر کی کہ اگر لڑکے کو آرام ہو جائے تو دس حافظوں سے ایک قرآن شریف ختم کراوں گا الخ

جواب:یہ نذر لازم نہیں ہوگی۔

۲)دیگ یا بکرے کی قیمت صدقہ کردی تو نذر سے بری الذمہ ہو جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 741)

(نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه.

فتاوی دار العلوم دیوبند ج۱۲ ص ۷۵

زید نے نذر مانی کی اگر میرا لڑکا پیدا ہوا تو ایک گائے صدقہ کروں گا الخ

جواب:قیمت ادا کرنے سے زید بری الذمہ ہوگیا الخ۔

۳)مسجد والوں کا اوراق کو کنویں میں دفنا کر اوپر بلاک اور پلستر ڈالنا شرعا درست تھا، یہ اسی طرح ہے جیسے اوپر منزل پر لوگ چلتے پھرتے ہیں  اور نیچے منزل  میں قرآن اور دیگر مقدس چیزیں  ہوتی ہیں  لیکن پھر بھی احتیاط اور ادب کے پیش نظر اس جگہ کو بند کر کے محفوظ کیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 422)

الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں