بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآنِ مجید کا ثواب خود کے لیے رکھنا بہتر ہے یا دوسروں کو بخشنا؟


سوال

قرآنِ مجید کا ثواب خودکےلیے رکھنا بہتر ہے یا دوسروں  کو بخشنا؟  اور یہ کہ ایک قرآن کا ثواب ایک میت کےلیےبخشنا بہترہے یا ایک سےزیادہ کےلیے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کوئی نیک عمل کرے اور اس کا ثواب کسی میت یا متعلقین میں سے کسی زندہ شخص کو ہدیہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا ثواب عمل کرنے والے کے لیے باقی نہ رہے گا, بلکہ عمل کرنے والے کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا اور اس کے ساتھ اس کو بھی ثواب ملے گا جس کو اس نے اپنے عمل کا ہدیہ پیش کیا ہے، نیز جس طرح ایک میت کو ثواب بھیجا جا سکتا ہے، اسی طرح متعدد اموات کو بھی ثواب ہدیہ کیا جا سکتا ہے، میت کے تعدد کی وجہ سے ثواب میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔

لہذا اگر کوئی آدمی قرآنِ شریف کی تلاوت کرتا ہے اور اس کا ثواب ایک یا ایک سے زائد مرحومین کو بھیجتا ہے تو  ہر  ایک کو اس کا ثواب پورا پورا ملے گا اور عمل کرنے والا بھی اپنے پورے اجر کا حق دار ہو گا، اور افضل یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کرتے ہوئے تمام مؤمنین اور مؤمنات کی نیت کرے۔

الفتاوى الهندية (5/ 350):
"وإذا أراد زيارة القبور يستحب له أن يصلي في بيته ركعتين يقرأ في كل ركعة الفاتحة وآية الكرسي مرةً واحدةً والإخلاص ثلاث مرات، ويجعل ثوابها للميت يبعث الله تعالى إلى الميت في قبره نورًا ويكتب للمصلي ثوابًا كثيرًا".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 212):
"فإن من صام أو صلّى أو تصدّق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة، وقد صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» صلى الله عليه وسلم، وروي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله: إن أمي كانت تحب الصدقة أفأتصدق عنها؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: تصدق» وعليه عمل المسلمين من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القرآن عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للأموات، ولا امتناع في العقل أيضًا؛ لأنّ إعطاء الثواب من الله تعالى إفضال منه لا استحقاق عليه، فله أن يتفضل على من عمل لأجله بجعل الثواب له كما له أن يتفضل بإعطاء الثواب من غير عمل رأسًا".

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب الجنائز، مطلب في القراء ة للمیت وإهداء ثوابها له، (2/243) ط: سعید:

"[تنبیه]

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغیر بأنّ للإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو غیرها، کذا في الهدایة. بل في زکاة التتارخانیة عن المحیط: الأفضل لمن یتصدّق نفلًا أن ینوي لجمیع المؤمنین و المؤمنات؛ لأنّها تصل إلیهم، ولاینقص من أجره شيءٍ اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة..."  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں