بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قتل کا حکم دینے والا جرم میں شریک ہے یا نہیں؟


سوال

ایک شخص(زید)نے کسی دوسرے شخص (خالد)کو کہا کہ عمرو کو قتل کردیں اور زید کے اس قول پر تین عینی گواہ موجود ہیں۔ اور خالد عمرو کو قتل بھی کردے۔ تو از روئے شریعت کیا اس قاتل کے ساتھ  حکم دینے والا بھی شریکِ جرم تصور کیا جائے گا؟ نیز کیا حکم دینے والا بھی قصاص میں شامل ہوگا؟ 

جواب

زید کے کہنے پر خالد نے عمرو کو قتل کیا تو قصاص خالد سے لیا جائے گا ،زید کو حاکمِ وقت فساد پھیلانے کے جرم میں سزا دے سکتاہے ، اور یہ سزا قتل بھی ہوسکتی ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"قال رحمه الله: (وعلى قتل غيره بقتل لايرخص) يعني لو أكره على قتل غيره بالقتل لايرخص له القتل لإحياء نفسه؛ لأنّ دليل الرخصة خوف التلف والمكره و المكره عليه سواء في ذلك، فسقط المكره؛ و لأن قتل المسلم بغير حق مما لايستباح لضرورة ما فكذا بالإكراه، و هذا لا نزاع فيه.

وأطلق في "قوله: غيره" فشمل الحر والعبد وعبده وعبد غيره.
وفي المحيط: لو أكره بقتله أن يقتل عبده أو يقطع يده لم يسعه ذلك فإن قتل يأثم، ويقتل المكره في القتل ويضمن نصف قيمته؛ لأن دمه حرام بأصل الفطرة، و لو أكره بقتل على أن يقتل أباه أو ابنه فقتله لم يحرمه عن الميراث، و لو كان المكره أبا المقتول أو ابنه يحرم عن الميراث؛ لأن المباشر للقتل هو المكره". (84/8ط:سعید) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144104200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں