بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبلہ کے لیے خاص بیت اللہ کے استقبال کا حکم کیوں ہے؟


سوال

 میں نے پڑھا ہے کہ زمین گول ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم کسی جگہ بھی رک کر اس جگہ سے دائیں بائیں، آگے یا پیچھے کدھر بھی چلنا شروع کریں گےتو واپس اسی جگہ پر آئیں گے، جہاں سے چلنا شروع کیا تھا، اس کا دوسرامطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آگے چلیں یاپیچھے، دائیں چلیں یا بائیں ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے، ہر رخ  سے  ہماری سیدھ   میں بیت اللہ ہی آتا ہے تو پھر نماز میں صرف پچھم رخ ( ہندوستان میں) نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا جاتا ہے، جب کہ کسی طرف بھی رخ کریں تو   {فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} پر عمل ہو جاتا ہے؟

 

جواب

 قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا  فرض ہے، یہ نماز کے انعقاد  کی  شرائط میں  سے  ہے، اس کے بغیر نماز منعقد نہیں ہوگی، اور  بیت اللہ  سے قریب والوں کے  لیے عینِ  کعبہ اور دور  رہنے والوں کے  لیے سمتِ  کعبہ  کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ارشادِ  خداوندی  ہے:

{فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [١٤٤: ٢]

یعنی  آپ نماز میں اپنا رُخ  مسجدِ  حرام  کی طرف کیا کریں۔

یہاں استقبالِ  قبلہ کا حکم ہے  کہ نماز  میں بیت اللہ کی طرف رُخ کرنا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ جس طرح  سے پہنچ کر آپ بیت اللہ پہنچ سکیں اس طرف  رخ کریں، اب اگر کسی شخص کی سیدھ  میں بیت اللہ ہو  اور  وہ اپنے دائیں یا بائیں چلنا شروع کردے تو  اسی خط پر چلتے ہوئے اس  کا قبلے  کی  سیدھ  یا رُخ میں آنا محال  ہے،  اگر پیچھے کی طرف چلنا شروع کردے تو یہ قبلہ کی طرف پیٹھ ہے، رُخ نہیں ہے،  لہذا جس علاقے  سے سطح ِ زمین  سے مسجدِ  حرام کی طرف رُخ ہوتا ہو وہی قبلہ رخ ہونا ہوگا۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے آیتِ قبلہ کی تفسیر میں اپنی مایہ ناز تفسیر ’’معارف القرآن‘‘  میں ایک سیر حاصل بحث کی ہے، جس سے آپ کو اپنے سوال کا اطمینان بخش جواب مل جائے گا،  ذیل میں  وہ تفصیل نقل کی جارہی ہے:

”قبلہ کے لفظی معنی ہیں سمتِ توجہ، یعنی جس طرف رخ کیا جائے۔  یہ ظاہر ہے کہ مؤمن کا رخ ہر عبادت میں صرف ایک اللہ وحدہ  لاشریک لہ  کی طرف ہوتا ہے اور اس کی ذات پاک مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے، وہ کسی خاص سمت میں نہیں، اس کا اثر طبعی طور پر یہ ہونا تھا کہ کوئی عبادت کرنے والا کسی خاص رخ کا پابند نہ ہوتا،  جس کا جس طرف جی چاہتا، نماز  میں اپنا رخ اس طرف کرلیتا اور  ایک ہی آدمی کسی  وقت ایک طرف اور کسی  وقت کسی طرف رخ کرتا تو وہ بھی بےجا نہ ہوتا۔

لیکن ایک دوسری حکمتِ الہیہ اس کی مقتضی ہوئی کہ تمام عبادت گزاروں کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ عبادت کی مختلف قسمیں ہیں:  بعض انفرادی ہیں، بعض اجتماعی، ذکر اللہ اور روزہ وغیرہ انفرادی عبادات ہیں،  جن کو خلوت میں اور  اِخفا  کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے، اور نماز اور حج اجتماعی عبادات ہیں، جن کو جماعت و اجتماع و اعلان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے، ان میں عبادت کے  ساتھ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی کے آداب کا بتلانا اور سکھانا بھی پیشِ نظر ہے، اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی نظام کا سب سے بڑا بنیادی اصول افرادِ کثیرہ کی وحدت اور یک جہتی ہے، یہ وحدت جتنی زیادہ قوی سے قوی ہوگی اتنا ہی اجتماعی نظام مستحکم اور مضبوط ہوگا، انفرادیت اور تشتت اجتماعی نظام کے لیے سمِ قاتل ہے۔

پھر نقطۂ  وحدت متعین کرنے میں ہر قرن ، ہر زمانہ کے لوگوں کی مختلف راہیں رہی ہیں، کسی قوم نے نسل اور نسب کو نقطۂ  وحدت  قرار دیا، کسی نے وطن اور جغرافیائی خصوصیات کو، کسی نے رنگ اور زبان کو، لیکن دینِ الہٰی اور شرائعِ انبیاء (علیہم السلام) نے ان غیر اختیاری چیزوں کو نقطۂ  وحدت بنانے کے قابل نہیں سمجھا اور نہ درحقیقت یہ چیزیں ایسی ہیں جو پورے افراد انسانی کو کسی ایک مرکز پر جمع کرسکیں، بلکہ جتنا غور کیا جائے،  یہ وحدتیں درحقیقت افرادِ انسانی کو بہت سی کثرتوں میں تقسیم کر ڈالنے اور آپس میں ٹکراؤ اور اختلافات کے اَسباب  ہیں۔

دینِ اسلام نے جو  درحقیقت تمام اَنبیاء (علیہم السلام) کا دین ہے،  وحدت کا اصل نقطہ فکر و خیال اور عقیدہ کی وحدت کو قرار دیا اور کروڑوں خداؤں کی پرستش میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک ذاتِ حق وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی ، جس پر مشرق ومغرب اور ماضی و مستقبل کے تمام افرادِ انسانی جمع ہوسکتے ہیں، پھر اس حقیقی فکری اور نظری وحدت کو عملی صورت اور قوت دینے کے لیے کچھ ظاہری وحدتیں بھی  ساتھ  لگائی گئیں، مگر ان ظاہری وحدتوں میں بھی اصول یہ رکھا گیا کہ وہ عملی اور اختیاری ہوں، تاکہ تمام افرادِ انسانی ان کو اختیار کرکے ایک رشتۂ  اُخوّت  میں منسلک ہوسکیں، نسب، وطن، زبان، رنگ وغیرہ اختیاری چیزیں نہیں ہیں ، جو شخص ایک خاندان کے اندر پیدا ہوچکا ہے،  وہ کسی طرح دوسرے خاندان میں پیدا نہیں ہوسکتا،  جو پاکستان میں پیدا ہوچکا  وہ انگلستان یا افریقا میں پیدا نہیں ہوسکتا، جو کالا ہے وہ اپنے اختیار سے گورا اور جو گورا ہے وہ اپنے اختیار سے کالا نہیں ہوسکتا۔

اب اگر ان چیزوں کو مزکزِ وحدت بنایا جائے تو انسانیت کا سیکڑوں، بلکہ ہزاروں ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجانا ناگریز ہوگا، اس لیے دینِ اسلام نے ان چیزوں سے جن سے تمدنی مفاد وابستہ ہیں ان کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان کو وحدتِ انسانی کا مرکز نہیں بننے دیا کہ یہ وحدتیں افرادِ انسانی کو مختلف کثرتوں میں بانٹنے والی ہیں، ہاں اختیاری امور میں اس کی پوری رعایت رکھی کہ فکری وحدت کے ساتھ عملی اور صوری وحدت بھی قائم ہوجائے، مگر اس میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا گیا کہ مرکزِ وحدت ایسی چیزیں بنائی جائیں جن کا اختیار کرنا ہر مرد و عورت لکھے پڑھے اور اَن پڑھ شہری اور دیہاتی امیر و غریب کو یک ساں طور پر آسان ہو۔

یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلام نے تمام دنیا کے لوگوں کو لباس اور مسکن کھانے اور پینے کے کسی ایک طریقہ کا پابند نہیں کیا کہ ہر جگہ کے موسم اور  طبائع مختلف اور  ان کے ضروریات مختلفہ  ہیں، سب کو ایک ہی طرح کے لباس یا شعار (یونیفارم) کا پابند کردیا جائے تو بہت سی مشکلات پیش آئیں گی، پھر اگر یہ یونیفارم کم سے کم تجویز کردیا جائے تو یہ اعتدالِ انسانی پر ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے عمدہ لباس اور عمدہ کپڑوں کی بےحرمتی ہوگی اور اگر اس سے زائد کسی لباس کا پابند کیا جائے تو غریب مفلس لوگوں کو مشکلات پیش آئیں گی، اس لیے شریعتِ اسلام نے مسلمانوں کا کوئی ایک شعار (یونیفارم) مقرر نہیں کیا، بلکہ مختلف قوموں میں جو طریقے اور اَوضاع لباس کی رائج تھیں، ان سب پر نظر کرکے ان میں سے جو صورتیں اِسراف بے جا یا فخر وغیرہ یا کسی غیر مسلم قوم کی نقالی پر مبنی تھیں، صرف ان کو ممنوع قرار دے کر باقی چیزوں میں ہر فرد اور ہر قوم کو آزاد اور خود مختار رکھا، مرکزِ وحدت ایسی چیزوں کو بنایا گیا جو اختیاری بھی ہوں اور آسان اور سستی بھی، ان چیزوں میں جیسے جماعتِ نماز  کی صف بندی ، ایک امام کی نقل و حرکت کی مکمل پابندی، حج میں لباس اور مسکن کا اشتراک وغیرہ ہیں۔

اسی طرح ایک اہم چیز سمتِ قبلہ کی وحدت بھی ہے کہ اگرچہ اللہ جل شانہ کی ذات پاک ہر سمت وجہت سے بالاتر ہے، اس کے لیے شش جہت یک ساں ہیں،  لیکن نماز میں اجتماعی صورت اور وحدت پیدا کرنے کے لیے تمام دنیا کے انسانوں کا رخ کسی ایک ہی جہت وسمت کی طرف ہونا ایک بہترین اور آسان اور بےقیمت وحدت کا ذریعہ ہے، جس پر سارے مشرق ومغرب اور جنوب و شمال کے انسان آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں۔

اب وہ ایک سمت و جہت کون سی ہو جس کی طرف ساری دنیا کا رخ پھیر دیا جائے،  اس کا فیصلہ اگر انسانوں پر چھوڑا جائے تو یہ ایک سب سے بڑی بناءِ  اختلاف ونزاع بن جاتی ہے، اس لیے  ضروری تھا کہ اس کا تعین خود حضرتِ حق جل وعلا شانہ کی طرف سے ہوتا، حضرت آدم (علیہ السلام) کو دنیا میں اتارا گیا تو فرشتوں کے ذریعہ ”بیت اللہ،  کعبہ“  کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی تھی، حضرت آدم (علیہ السلام) اور اولادِ آدم (علیہ السلام) کا سب سے پہلا قبلہ یہی بیت اللہ اور خانہ کعبہ بنایا گیا:

{اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ للنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ}(٩٦: ٣)

 سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا ہدایت والا جہاں والوں کے لیے۔

حضرت نوح (علیہ السلام) تک سب کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا، طوفانِ نوح (علیہ السلام) کے وقت پوری دنیا غرق ہو کر تباہ ہوگئی، بیت اللہ کی عمارت بھی منہدم ہوگئی اور ان کے بعد حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے دوبارہ بحکمِ خداوندی بیت اللہ کی تعمیر کی اور یہی ان کا اور ان کی امت کا قبلہ رہا، اس کے بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کے لیے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا اور بقول ابو العالیہ انبیاءِ سابقین جو بیت المقدس میں نماز  پڑھتے تھے  وہ بھی عمل ایسا کرتے تھے کہ صخرۂ  بیت المقدس بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی ۔ (ذکرہ القرطبی)

حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتداءً  آپ کا قبلہ آپ کے جدِ امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے اور مدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرتِ مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے، صحیح بخاری کی روایت کے  مطابق آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی، مسجدِ نبوی میں آج تک اس کی علامات موجود ہیں جہاں کھڑے ہوکر آپ نے بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا فرمائی تھیں۔ (قرطبی) 

حکمِ خداوندی کی تعمیل کے لیے تو سید الرسل سر تاپا اطاعت تھے اور حکمِ خداوندی کے مطابق نمازیں بیت المقدس کی طرف ادا فرما رہے تھے، لیکن آپ کی طبعی رغبت اور دلی خواہش یہی تھی کہ آپ کا قبلہ پھر وہی آدم (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ قرار دے دیا جائے، اور چوں کہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ اپنے مقبول بندوں کی مراد اور خواہش ورغبت کو پورا فرماتے ہیں:  تو چناں خواہی خدا خواہد چنیں  :  می دہد یزداں مراد متقیں۔

آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ امید تھی کہ آپ کی تمنا پوری کی جائے گی اور اس لیے انتظارِ وحی میں آپ بار بار آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے تھے، اسی کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے:

{قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [١٤٤: ٢]

ہم دیکھ رہے ہیں آپ کا بارہا آسمان کی طرف نظر اٹھانا، سو ہم آپ کا قبلہ وہی بدل دیں گے جو آپ کو پسند ہے، اس لیے آئندہ آپ نماز میں اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف کیا کریں۔

اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا کا اظہار فرما کر اس کو پورا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے کہ آئندہ آپ مسجدِ حرام کی طرف رخ کیا کریں۔انتھی‘‘.

(معارف القرآن سورۃ بقرۃ ، آیت 142)

 چند صفحات کے بعد حضرتِ اقدس رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں :

”یہ تحقیق پہلے آچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے تو ساری سمتیں اور ساری جہات برابر ہیں  {قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ} لیکن مصالحِ امت کے لیے بتقاضائے حکمت کسی ایک جہت کو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے لیے قبلہ بنا کر سب میں ایک دینی وحدت کا عملی مظاہرہ مقصود تھا، وہ جہت بیت المقدس بھی ہوسکتی تھی، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا کے مطابق کعبہ کو قبلہ بنانا تجویز کرلیا گیا اور اسی کا حکم اس آیت میں دیا گیا، اس کا متقضیٰ  یہ تھا کہ اس جگہ "فَوَلِّ وَجْهَكَ إلى الکعبة"  یا   "إلى بیت اللّٰه" فرمایا جاتا،  مگر قرآنِ حکیم نے یہ عنوان بدل کر "شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ" کے الفاظ اختیار فرمائے، اس سے کئی اہم مسائل استقبالِ  قبلہ کے بارے میں واضح ہوگئے:

اول یہ کہ اگرچہ اصل قبلہ بیت اللہ ہے جس کو کعبہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ اصل بیت اللہ کا استقبال اسی جگہ تک ہوسکتا ہے  جہاں تک بیت اللہ نظر آتا ہے، جو  لوگ وہاں سے دور ہیں اور بیت اللہ ان کی نظروں سے غائب ہے، اگر ان پر یہ پابندی عائد کی جائے کہ عین بیت اللہ کی طرف رخ کرو تو اس کی تعمیل بہت دشوار ہوجائے، خاص آلات وحسابات کے ذریعہ بھی صحیح سمت کا استخراج دور کے شہروں میں مشکل اور غیر یقینی ہوجائے اور شریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام کا مدار سہولت و آسانی پر رکھا گیا ہے، اس لیے  بجائے بیت اللہ یا کعبہ کے مسجدِ  حرام کا لفظ رکھا گیا جو بہ نسبت بیت اللہ کے بہت زیادہ وسیع رقبہ پر مشتمل ہے، اس کی طرف رخ پھیرلینا دور دور تک لوگوں کے لیے آسان ہے۔

پھر ایک دوسری سہولت ’’لفظِ شطر‘‘  اختیار کرکے دے دی گئی، ورنہ اس سے مختصر لفظ  "إلی الْمَسْجِدِ الْحَرَام" تھا اس کو چھوڑ کر {شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام} فرمایا گیا ’’شطر‘‘ دو معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے،  ایک نصف شے، دوسرے سمتِ شے، باتفاقِ مفسرین اس جگہ ’’شطر‘‘ سے مراد سمت ہے تو اس لفظ نے یہ بتلا دیا کہ بلادِ بعیدہ میں یہ بھی ضروری نہیں کہ خاص مسجدِ حرام ہی کی طرف ہر ایک کا رخ ہوجائے تو نماز درست ہو، بلکہ سمتِ مسجد حرام کافی ہے. (بحر محیط) ۔ مثلاً: مشرقی ممالک ہندوستان وپاکستان وغیرہ کے لیے جانبِ مغرب مسجدِ حرام کی سمت ہے تو مغرب کی جانب رخ کرلینے سے استقبالِ قبلہ کا فرض ادا ہوجائے گا۔‘‘

(معارف القرآن سورۃ بقرۃ ، آیت 144)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144004201442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں