بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قبضہ کے بغیر محض نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی


سوال

میں نے آپ سے ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب مندرجہ ذیل ہے :

سوال : رابعہ بی بی زوجہ شاہ جہان جو کہ شوہر اور بیٹوں کے بعد وفات پائی ہو، ان کے 2 دو بیٹے تھے، جن کی اولاد تاحال زندہ ہے، پہلے بیٹے کے 3 بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ دوسرے بیٹے کا1 بیٹا اور 1 بیٹی ہے۔ رابعہ بی بی نے اپنے ایک پوتے سے کہا تھا: میری جائیداد آپ کی ہے۔اب رابعہ بی بی کی وفات کے بعد جائیداد اس پوتے کی ہوگی یا باقی پوتوں کو بھی حصہ ملے گا؟

جواب : دادی کا اپنے پوتے سے یہ کہناکہ : ''میری جائیداد آپ کی ہے''، صرف اتنا کہنے سے جائیداد پوتے کی ملکیت نہیں بنے گی، بلکہ بدستور زوجہ شاہ جہان کی ملکیت رہے گی؛ اس لیے رابعہ بی بی کی جائیداد اس کے تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگی۔

واضح رہے کہ جس طرح لڑکے وارث بنتے ہیں اسی طرح شریعت میں لڑکیوں کا حصہ بھی مقرر ہے ، لہذا مرحومہ کے پوتوں کے ساتھ پوتیاں بھی مرحومہ کی وارث بنیں گی۔اگر رابعہ بی بی کے ورثاء صرف مذکورہ بالاپوتے اور پوتیاں ہیں توان میں وراثت کی تقسیم درج ذیل تناسب سے ہوگی: مرحومہ کے کل ترکہ کو 13حصوں میں تقسیم کرکے دو،دو حصے ہر ایک پوتے کو اور ایک،ایک حصہ ہر ایک پوتی کو دیا جائے گا۔یعنی سو روپے میں سے 15٫38 روپے ہر ایک پوتے کو اور 7٫69 روپے ہر ایک پوتی کو ملیں گے۔فقط واللہ اعلم

 

لیکن میں آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ  دادی نے تمام پوتوں کے سامنے دلکش خان سے کہا تھا کہ میری جائیداد آپ کی ہے.اب آپ راہ نمائی فرمائیے کہ جائیداد دلکش خان کی ہوگئی یا باقی پوتوں کو حصہ ملے گا؟  براہ مہربانی سوال کو اسی ترتیب سے لکھ  کر راہ نمائی کر دیجیے.

جواب

صورتِ مسئولہ میں دادی نے اپنے ایک پوتے دلکش خان سے جو  زبانی یہ کہا تھا کہ :"  میری  جائیداد آپ کی ہے" ، محض زبانی  ان الفاظ سے دلکش خان ان کی جائیداد کا شرعاً مالک نہیں بنا؛ کیوں کہ شرعاً  مالک بننے کے لیے  ضروری تھا کہ مرحومہ دادی اپنی زندگی میں ہی  اپنا قبضہ ختم کرکے اپنی جائیداد  دلکش خان کے قبضہ میں دے دیتیں ؛ لہذا ان کی وفات کے بعد ان کی متروکہ جائیداد  میں ان کے تمام شرعی وارث شریک ہوں گے، اور جو طریقہ کار گزشتہ فتوے میں بتایا گیا اس کے مطابق مرحومہ کی متروکہ جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں