بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان کی وقف زمین میں مسجد بنانا


سوال

ہمارے علاقے میں قبیلہ کی ایک مشترکہ زمین کو قبرستان کے لیے  وقف کیا گیا تھا جس کے ایک حصے میں  بعد میں مسجد تعمیر کی گئی، مسجد تقریبًا پچھلے  20 سال سے آباد ہے، لیکن اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین قبرستان کے لیے وقف تھی، لہذا یہاں نماز پڑھنا جائز نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ جب مالکان نے مذکورہ جگہ کو قبرستان کے لیے وقف  کیا تھا تو اس جگہ کو   صرف قبرستان ہی کے مقاصد میں صرف کرنا چاہیے تھا،  لوگوں کا بعد میں اس قبرستان کے لیے وقف کردہ جگہ میں مستقل طور پر مسجد تعمیر کرنا درست  نہیں تھا،مذکورہ مسجد میں ادا کی گئی نمازیں تو  درست ہیں،  مگر قبرستان کے لیے وقف شدہ  زمین پر تعمیر کی گئی مسجد میں نمازوں کی ادائیگی سے شرعی مسجد کا ثواب اور نماز کا کامل ثواب نہیں ملے گا؛اس لیے کہ وقف میں تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔

 البتہ  اگر قبریں بوسیدہ ہوچکی ہوں اور آئندہ اس میں تدفین کی ضرورت نہ ہو اور مسجد کو توسیع کی ضرورت بھی ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ ایسی زمین میں مسجد تعمیر کرلی جائے، اگر کھدائی کے دوران بوسیدہ ہڈیاں وغیرہ نکلیں تو ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کہیں دفنا دیا جائے۔ اسی طرح  اگر واقفین نے وقف کرتے وقت وہاں مسجد بنانے کی بھی اجازت دی تھی تو اس صورت میں بھی اس زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعًا درست ہے اور ایسی مسجد، ’’شرعی مسجد‘‘  کہلائے  گی اور  وہاں نمازوں کی ادائیگی درست ہوگی اور ثواب بھی مکمل ملے گا۔

"الفقہ الاسلامی وادلتہ" میں ہے:

" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."

(الفقه الاسلامی وادلته ۱۰/۷۶۱۷ ، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف) 

"فتاوی شامی" میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".

 (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4 / 179):

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرةً من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدًا لم أر بذلك بأسًا، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضًا وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد. وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكًا لأربابها، فإذا عادت ملكًا يجوز أن يبنى موضع المسجد دارًا وموضع المقبرة مسجدًا وغير ذلك، فإذا لم يكن لها أرباب تكون لبيت المال". 

فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 144104200873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں