بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قبر کے سرہانے اور پیر کی طرف سورۃ بقرہ اول وآخر پڑھنا


سوال

 قبر کے سرہانے پر شہادت کی انگلی رکھ کر سورے بقرہ کا پہلا رکوع اور پیر کی جانب آخری رکوع پڑھنے کے کا کیا ثبوت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کا اول رکوع پڑھنا اور پیر کی جانب آخری رکوع پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے، البتہ انگشتِ شہادت کا مٹی میں رکھنا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشایخ ہے؛ لہٰذا  انگشت کو قبر کے سرہانے رکھنا نہ رکھنا دونوں جائز ہے، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا مات أحدكم، فلاتحسبوه واسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمة البقرة". (كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:1، ص: 149، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لما في سنن أبي داود: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره، وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت؛ فإنه الآن يسأل. وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها.

وروي أن عمرو بن العاص قال وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلاتصحبني نائحة ولا نار، فإذا دفنتموني فشنوا على التراب شنًّا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ما ذا أراجع رسل ربي، جوهرة". (2/237، ط: سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، انگشتِ شہادت مٹی میں رکھنا ثابت نہیں، بلکہ معمولِ مشائخ ہے، لہٰذا دونوں صورتوں میں مضائقہ نہیں، میت کو دفن کرنے کے بعد کچھ دیر تک ٹھہرنا اور ذکر و تسبیح میں مشغول رہنا اور دعا کرنے میں مضائقہ نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس سے سوال وجواب میں آسانی ہوتی ہے، بعض صحابہ نے اس کی وصیت بھی فرمائی ہے‘‘۔ (ج:9، ص: 108، ط: فاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں