بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قبائلی علاقوں میں رائج شرکت کی ایک صورت


سوال

ہمارے بلوچستان میں چاریا پانچ یا چھ بھائی اکٹھےایک ساتھ رہتے کھاتے اور کماتے ہیں، ان میں سےایک بھائی گھر کے انتظام و ضروریات کے لئے ہمیشہ گھر ہی ہوتا ہے، جبکہ دوسرے بھائی مختلف کاموں کے سلسلے میں ادھرادھر جاتے ہیں، محنت مزدوری تجارت وغیرہ اسباب معاش اختیار کرتے ہیں کوئی کم کوئی زیادہ کماتا ہے،کوئی نقصان کرتا ہے ۔تمام بھائی نقصان مشترکہ طور پر ادا کرتے ہیں اور اگر نفع ہو تو اس میں بھی تمام بھائی برابر کے حقدار ہوتے ہیں، ان کا سارا سرمایہ نفع و نقصان وغیرہ مشترک غیر امتیاز ہوتا ہے ۔نفع اور روپیہ آتے ہی سارا خلط ومشترک جمع ہوتاہے۔اس تفصیل کے بعد چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

شرعا یہ شرکت معتبر ہے جبکہ یہاں بھائیوں میں باقاعدہ کوئی ایجاب و قبول اور کوئی عقد نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ان کو میراث میں کچھ ملا ہے نہ اور کوئی مشترکہ جائیداد ہے جن کو انھوں نے ترقی دیکربڑھایاہوں،بلکہ ہر ایک محنت و مزدوری اور مختلف ذرائع سے کما کر جمع کرتا ہے۔اگر شرکت ہے تو شرکت کونسی قسم ہے کیا بغیر کسی عقد اور ایجاب و قبول کے محض آپس کی رضامندی و سکوت سے شرکت یا وکالت جائز ہے؟ہمارے ہاں تمام شہروں اور دیہاتوںمیں ایسے اکھٹے ساتھ رہنے والے بھائی شریک سمجھے جاتے ہیں ،یہاں کے عرف میں شرکت کے الفاظ ذکر کئے بغیر بھائیوں کا آپس کی رضامندی سکوت اکھٹے رہنے کو شرکت سمجھا جاتا ہے ،کیا ہمارا علاقائی عرف معتبر ہو کر شرعا بھی شریک سمجھے جائیں گے ۔صرف ایک باپ کےبیٹے ہونےکےناطےان کی یہ شرکت شرکت عقد شمار ہوگی ؟کیا شرکت عقد دلالتا یا عرفا بھی منعقد ہوسکتی ہے۔جائیداد کےتقسیم کے وقت پنچائیت وغیرہ کے ذریعے بغیر کسی تفریق کے ہر ایک بھائی کو برابر حصہ دیا جاتا ہے ،کیا ایسے شرکاء میں اس طرح کی تقسیم درست ہے؟ گھر بیٹھے بھائی کی حیثیت شریک کی ہے یا اجیر کی ؟

جواب

آپ کی ذکرکردہ عموماًقبائلی علاقوں میں رائج اموال وکمائی  اورنفع ونقصان وغیرہ میں شرکت یہ شرعی شرکت نہیں بلکہ رواجی شرکت کہلاتی ہے،یہ شرکت فقہائے کرام کی ذکرکردہ شرکت کی اقسام میں سے کسی قسم کے تحت داخل نہیں ہے۔البتہ اختلاف اورتقسیم کی صورت میں اگرہرایک کے مال کاتعین نہ کیاجاسکتاہواوریہ بھی معلوم نہ ہوکہ کس کی کتنی رقم خرچ ہوئی ہے،کس کی کم ہے اورکس کی زیادہ ہے  تواس صورت میں جائیدادوغیرہ تمام بھائیوں میں مساوی طورپرتقسیم کی جائے گی۔

فتاوی شامی  میں ہے:

مطلب اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية  تنبيه يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز فأجاب بأنه بينهما سوية وكذا لو اجتمع إخوة يعلمون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولو اختلفوا في العمل والرأي ا هـ.(4/325،ط:بیروت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143707200016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں