بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قانونی مسائل کی وجہ سے بیٹے کے نام جائیداد کرنا


سوال

 میرے  والد  گورنمنٹ  ملازم  تھے اور  پروفیسر تھے انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد  ایک تعلیمی ادارہ  20  مرلہ میں ایک  شخص کے ساتھ مل کر بنایا، میرے والد  گورنمنٹ ملازم (پروفیسر ) ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے میں اپنا حصہ اپنے نام نہیں رکھ سکتے تھے؛ اس  لیے  اپنے حصہ کے 10 مرلے اپنے 1 نابالغ بیٹے کے نام انتقال کروا دیے،   تعلیمی ادارہ میرے والد اور پارٹنر نے مل کر تعمیر کروایا،  میرے والد 4 سال ادارے سے منافع بھی بذریعہ بنک وصول کرتے رہے۔ والد نے اپنے پارٹنر سے معاہدہ بھی کیا تھا جب تک وہ ریٹائر نہیں ہوتے پارٹنر ادارے کا انچارج ہو گا،  ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد ادارے کے پرنسپل  ہوں گے، ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل میرے والد کی وفات ہو گئی۔  جس بھائی کے نام میرے والد نے مجبوری کے تحت جائیداد لگائی تھی، اب وہ بالغ بھی ہو گیا ہے،  اب ہم نے وراثت تقسیم کرنی ہے،  کیا ہم 4 بھائیوں کا اس 10 مرلہ میں حصہ بنتا ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ کے والد نے ایک اور شخص کے ساتھ مل کر  20 مرلہ پر  ایک تعلیمی ادارہ بنایا اور اپنے حصہ کے 10 مرلہ قانونی مسائل کی وجہ سے چھوٹے بیٹے کے نام  کیے تھے تو  محض نام کردینے سے وہ چھوٹے بیٹے کی ملکیت نہیں ہوئے،  بلکہ وہ بدستور والد ہی کی ملکیت تھی، اب والد کے انتقال کے بعد یہ مذکورہ حصہ ان کا ترکہ ہے، جو ان  کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

         فتاویٰ عالمگیری میں ہے: 

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں