بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قارن اور متمتع کا دس ذی الحجہ کو دم شکر کی قربانی نہ کرسکنے کی صورت میں ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کو روزہ رکھنے کا حکم


سوال

قارن اور متمتع عین ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہ کر سکے تو کیا "ثلاثة في الحج"  کی بنیاد پر . 11.12.13. ذوالحجہ کو روزہ رکھ سکتے ہیں؟

جواب

قارن اور متمتع اگر دس ذی الحجہ کو دم شکر والی قربانی نہ کرسکے تو  ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ کو بھی قربانی کرسکتا ہے، کیوں کہ قران اور تمتع کے دم شکر کا وقت ۱۲ ذی الحجہ کو مغرب سے پہلے تک باقی رہتا ہے، باقی دم شکر کی قربانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت جو روزہ رکھنے کی رخصت ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ دس میں سے تین روزے دس ذی الحجہ سے پہلے رکھ لیے ہوں یعنی عرفہ کے دن تک تین روزے مکمل کرلینے ضروری ہیں، اگر یوم عرفہ تک تین روزہ نہ رکھے ہوں تو پھر قربانی ہی واجب رہے گی، کیوں کہ ’’ثلاثۃ فی الحج‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تین روزے ایسے رکھے کہ آخری (تیسرا) روزہ کم از کم عرفہ کے دن ہو ، یوم عرفہ کے بعد نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 532):
(وذبح للقران) وهو دم شكر فيأكل منه (بعد رمي يوم النحر) لوجوب الترتيب (وإن عجز صام ثلاثة أيام) ولو متفرقة (آخرها يوم عرفة) ندبا رجاء القدرة على الأصل، فبعده لا يجزيه؛ فقول المنح كالبحر بيان للأفضل فيه كلام (وسبعة بعد) تمام أيام (حجه) فرضا أو واجبا، وهو بمعنى أيام التشريق (أين شاء) لكن أيام التشريق لا تجزيه - {وسبعة إذا رجعتم} [البقرة: 196]- أي فرغتم من أفعال الحج، فعم من وطنه منى أو اتخذها موطنا (فإن فاتت الثلاثة تعين الدم) فلو لم يقدر تحلل وعليه دمان، ولو قدر عليه في أيام النحر قبل الحلق بطل صومه.

ويختص بالمكان وهو الحرم والزمان وهو أيام للنحر ... (قوله: وإن عجز) أي بأن لم يكن في ملكه فضل عن كفاف قدر ما يشتري به الدم، ولا هو: أي الدم في ملكه لباب، ومنه يعلم حد الغني المعتبر هنا، وفيه أقوال أخر، ويعلم من كلام الظهيرية أن المعتبر في اليسار والإعسار مكة لأنها مكان الدم كما نقله بعضهم عن المنسك الكبير للسندي (قوله: ولو متفرقة) أشار إلى عدم لزوم التتابع ومثله في السبعة، وإلى أن التتابع أفضل فيهما كما في اللباب (قوله: آخرها يوم عرفة) بأن يصوم السابع والثامن والتاسع.
قال في شرح اللباب: لكن إن كان يضعفه ذلك عن الخروج إلى عرفات والوقوف والدعوات فالمستحب تقديمه على هذه الأيام، حتى قيل يكره الصوم فيها إن أضعفه عن القيام بحقها. قال في الفتح: وهي كراهة تنزيه إلا أن يسيء خلقه فيوقعه في محظور (قوله: ندبا رجاء القدرة على الأصل) لأنه لو صام الثلاثة قبل السابع وتالييه احتمل قدرته على الأصل فيجب ذبحه ويلغو صومه، فلذا ندب تأخير الصوم إليها، وهذه الجملة سقطت من بعض النسخ (قوله: فبعده لا يجزيه) أي لا يجزيه الصوم لو أخره عن يوم النحر ويتعين الأصل. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں