میں ایک تعمیراتی ٹھیکہ دار ہوں، کچھ پیسے میرے پاس ابھی موجود ہیں، اور کچھ تین چار جگہ مالکِ مکان کے پاس باقی ہیں جو پیسے میرے پاس نہیں ہیں، کیا ان پر زکاۃ ہے یا نہیں؟
جو رقم آپ کے پاس فی الحال موجود ہے، اس کی زکاۃ ادا کرنا تو بلا شبہ آپ پر لازم ہو گیا، البتہ جو رقم قابلِ وصول ہے اور لوگوں پرادھارہے، اس میں یہ تفصیل ہے کہ جو رقم بطورِ اجرت آپ کا حق ہے اور لوگوں سے وصول کرنا ہے، اس کی زکوۃ آپ پر اُسی وقت لازم ہو گی جب وہ وصول ہو جائے، اگر اس رقم کی وصولی میں کئی سال بھی لگ جائیں تو گزشتہ سالوں کی زکوۃ لازم نہیں ہو گی، بلکہ وصول ہونے کے بعد زکوٰۃ کا سال پورا ہونے پر اس کی زکوۃ لازم ہو گی۔
اور اگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تعمیرات کے دوران آپ کی اپنی ذاتی رقم کا material استعمال ہوتا ہو جو بعد میں وصول ہوتا ہو تو اس رقم کی زکوۃ کی ادائیگی میں دو صورتیں جائز ہیں:
1. ابھی ہی(یعنی جب زکاۃ کی ادائیگی کادن ہو) اس کی زکوۃ ادا کردیں،پھرجب وہ قرض وصول ہوگا تواس کی زکوۃ ادا کرنی کی ضرورت نہیں ہوگی۔
2. مذکورہ قرض کی رقم جب وصول ہوجائے توحساب کرلیاجائے کہ اس پرکتناعرصہ گزراہے؟ اگرایک سال گزراہے تواس کی ایک سال کی زکوۃ اداکردیں اوراگردوسال گزرے ہیں توقرض ملنے کے بعددوسالوں کی زکوۃ ادا کردیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 305):
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابًا وحال الحول، لكن لا فورًا بل (عند قبض أربعين درهمًا من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلّما قبض أربعين درهمًا يلزمه درهم."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201588
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن