بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فقہ کی حقیقت کیا ہے؟


سوال

فقہ کی تفصیل کیا ہے؟

جواب

انسانی کمالات کا مدار علمی اور عملی کمال پر ہے، اگر دنیوی اور عصری علوم کا دین سے تعلق نہ ہو تو وہ  سراسر جہالت ہے، اور دینی علوم میں "علمِ فقہ" کو جو اہمیت اورعظیم مقام حاصل ہے وہ کسی اور علم کو حاصل نہیں ہے، قرآنِ کریم سمجھنے اور حدیث طلب کرنے کا آغاز فقہ ہی سے ہوتا ہے، اور یہی فقہ قرآن وحدیث کا نتیجہ اور ثمرہ بھی ہے، اگر کوئی دینی  طالبِ علم یا عالمِ دین فقہ میں ناپختہ ہو تو اسے قرآنِ پاک اور حدیث شریف سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔

فقہ قرآن وحدیث سے ہٹ کر شریعت کا کوئی مستقل یا الگ سرچشمہ اور ماخذ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خاص ضابطہ کے تحت قرآن وحدیث کی  مکمل اور جامع شرح ہے، یہ قرآن وحدیث سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ  اس کو قرآن وحدیث ہی سے لیا گیا ہے، جن باتوں کو قرآن وحدیث میں اصولی اور اجمالی  طور پر بیان کیا گیا ہے، انہی باتوں کو ائمہ نے فقہ میں تفصیل کے ساتھ فروعات اور جزئیات کی شکل میں نمایاں کیا ہے۔

 امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ  (المتوفیٰ 204ھ) فرماتے ہیں: "ائمہ کرام نے جتنی باتیں بیان فرمائی ہیں وہ سب حدیث ہی کی شرح ہیں اور پورا ذخیرہ احادیث قرآنِ کریم کی شرح ہے"۔

الإكليل في استنباط التنزيل (ص: 11):
’’وقال الإمام الشافعي، رضي الله عنه: جميع ما تقوله الأمة شرح للسنة، وجميع شرح السنة شرح للقرآن‘‘.

امام محمد بن محمد غزالی (المتوفی 505ھ) لکھتے ہیں: " بے شک فقہ علمِ شرعی ہے؛ کیوں کہ وہ نبوت (یعنی قرآن وحدیث) ہی سے لیا گیا ہے۔

إحياء علوم الدين (1/ 19):
’’ وأن الفقه أشرف منه من ثلاثة أوجه. أحدها: أنه علم شرعي؛ إذ هو مستفاد من النبوة‘‘.

اسلام کے شروع زمانہ میں فقہ کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ  اس میں عقائد ، اخلاق، اور فروعی مسائل سب شامل تھے، چناچہ جلیل القدر تابعی ، امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رحمہ اللہ (المتوفی 150ھ) سے فقہ کی تعریف اس طرح منقول ہے:

"فقہ ان چیزوں کو جاننے کا نام ہے جو نفس کو فائدہ پہنچائیں اور جو اسے نقصان پہنچائیں"۔ 

شرح التلويح على التوضيح (1/ 16):  "والفقه معرفة النفس ما لها وما عليها".

پھر جب خلیفہ مامون الرشید کے دور میں یونانی فلسفہ کی ترجمہ والی کتابوں کے اثرات سے عقائد کی سادگی ختم ہوگئی  اور اس کے مباحث طویل، مشکل، اور پیچیدہ بن گئے تو عقائد کو فقہ سے نکال کرایک مستقل فن کی حیثیت دے دی گئی اور وہ "علم الکلام" کے نام سے مشہور ہوگیا، اس کے بعد اخلاقیات کو فقہ سے نکال کر ایک الگ علم کی حیثیت حاصل ہوگئی جو "علمِ تصوف" کے نام سے مشہور ہوا، اس کے بعد  "فقہ"صرف عملی جزئیات اور فروعی مسائل  کا نام رہ گیا، اب اس میں عقائد اور اخلاق  داخل نہیں ہیں، اس لیے بعد کے زمانہ کے فقہاء نے فقہ کی یہ تعریف کی ہے کہ " فقہ شرعی وعملی احکام اور قوانین کے علم کا نام ہے جو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل ہو"۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 36):
’’فالفقه لغةً: العلم بالشيء، ثم خص بعلم الشريعة، وفقه بالكسر فقهاً علم، وفقه بالضم فقاهةً صار فقيهاً. واصطلاحاً: عند الأصوليين: ’’العلم بالأحكام الشرعية الفرعية المكتسب من أدلتها التفصيلية‘‘. 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں