بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فضولی کے نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کرنا


سوال

زید کا نکاح تھا، بھائی نے کہا کہ چلو نکاح کے لیے چلو ،لیکن بھائی سے کچھ تلخی کی وجہ سے اس نے انکار کیا کہ میں نہیں جاتا۔ بھائی گیا اور اس کی غیر موجودگی میں نکاح کیا۔ زید کہتا ہے کہ اس نے نکاح کے دوران مجھ سے اجازت نہیں لی، لیکن زید کہتا ہے کہ اس نے دل سے نکاح کا انکار نہیں کیا تھا۔ پھر شادی ہوئی اور زید اور بیوی کی ملاقات ہوئی ۔ دونوں کی اولاد ہوئی۔  اب زید کو یاد آیا کہ دورانِ نکاح کسی نے مجھ سے نکاح کی اجازت نہیں لی۔لیکن اس نکاح پر میں خوش تھا اور ہوں، لیکن بات صرف نکاح کے دوران مجھ سے اجازت کی تھی، جو کسی نے مجھ سے نہیں لی۔ اور اسے اپنی بات جو وہ اس نے اپنے بھائی سے کہی تھی کہ میں نہیں جاتا زید کو شک میں مبتلا کرتی ہے۔ تو کیا یہ نکاح درست ہے؟

جواب

زید نے اگر اپنے بھائی کو اپنے نکاح کرنے کے لیے نہیں کہا تھا اور نہ ہی نکاح کی اجازت دی تھی، بلکہ زید کے بھائی نے از خود  گواہوں کی موجودگی میں زید کا نکاح کردیا تو یہ "نکاح فضولی " ہوا، جو زید کی اجازت پر موقوف تھا، اور جب بھائی کے اس نکاح کرنے کے بعد زید نے بیوی سے خلوت کرلی اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کرلیے تو یہ فعلی اجازت ہوگئی اور اس سے یہ نکاح درست ہوگیا ہے۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:
"وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل، كذا في البحر الرائق"۔(1/ 299)

"فتاوی شامی" میں ہے:
"من فعل يدل على الرضا، ومقتضاه أن قبض المهر ونحوه رضا كما مر من جعله رضا دلالة في حق الولي، وبه صرح في الخانية بقوله: الولي إذا زوج الثيب فرضيت بقلبها ولم تظهر الرضا بلسانها كان لها أن ترد؛ لأن المعتبر فيها الرضا باللسان أو الفعل الذي يدل على الرضا نحو التمكين. من الوطء وطلب المهر وقبول المهر دون قبول الهدية، وكذا في حق الغلام. اهـ. (قوله: ودخوله بها إلخ) هذا مكرر، والظاهر أنه تحريف، والأصل: "وخلوته بها"، فإن الذي في البحر عن الظهيرية: ولو خلا بها برضاها، هل يكون إجازة؟ لا رواية لهذه المسألة، وعندي أن هذا إجازة. اهـ. وفي البزازية: الظاهرة أنه إجازة"۔  (3/ 62) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں