بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرقے کا معنیٰ


سوال

’’فرقے‘‘  کے معنی کیا ہیں؟

جواب

’’فرقے‘‘  جمع ہے ’’فرقہ‘‘  کی، بمعنی جماعتیں۔ لغت میں’’فرقہ‘‘  [ف کے کسرہ کے ساتھ] لوگوں کی ایک جماعت کو کہاجاتاہے، یہ اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔

قرآنِ کریم واحادیثِ مبارکہ میں فرقہ بندی کی ممانعت اور مذمت کی گئی ہے اور فرقہ بندی سے مراد وہ اختلاف ہے جو اصولِ دین وعقائدِ دین میں ہو ۔ چنانچہ سورہ انعام کی آیت 156 کے ذیل میں مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بری ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا کوئی تعلق نہیں، پھر ان کو یہ وعیدِ شدید سُنائی کہ ان کا معاملہ بس خدا تعالیٰ کے حوالے ہے، وہی ان کو قیامت کے روز سزا دیں گے۔دین میں تفرق ڈالنا اور فرقے بن جانا جو اس آیت میں مذکور ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اصولِ دین کے اتباع کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور خواہشات کے مطابق یا شیطانی مکر و تلبیس میں مبتلا ہو کر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھا دے یا بعض چیزوں کو چھوڑ دے ۔.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے مشکلات اور مبہمات کی تفسیر اور اپنی سنت کی تفصیلات اپنے بلا واسطہ شاگرودں یعنی صحابہ کرام کو اپنے قول و عمل کے ذریعہ سکھلائیں، اس لیے  جمہور صحابہ کا عمل پوری شریعتِ الٰہیہ کا بیان و تفسیر ہے؛ اس لیے  مسلمان کی سعادت اسی میں ہے کہ ہر کام میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرے، اور جس آیت یا حدیث کی مراد میں اشتباہ ہو اس میں اس کو اختیار کرے جس کو جمہور صحابہ کرام نے اختیار فرمایا ہو ۔ اس مقدس اصول کو نظر انداز کر دینے سے اسلام میں مختلف فرقے پیدا ہوگئے کہ تعاملِ صحابہ اور تفسیراتِ صحابہ کو نظر انداز کرکے اپنی طرف سے جو جی میں آیا اس کو قرآن و سنت کا مفہوم قرار دے دیا، یہی وہ گم راہی کے راستے ہیں جن سے قرآنِ کریم نے بار بار روکا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر بڑی تاکید کے ساتھ منع فرمایا، اور اس کے خلاف کرنے والوں پر لعنت فرمائی‘‘۔ 

شیخ الاسلام مولاناشبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ سے پھر اصل مطلب کی طرف عود کیا گیا۔  یعنی دینِ الہٰی کا راستہ (صراطِ مستقیم) ایک ہے۔ جو لوگ اصل دین میں پھوٹ ڈال کر جدا جدا راہیں نکالتے اور فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہوتے ہیں خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ یا وہ مدعیانِ اسلام جو مستقبل میں عقائدِ دینیہ کی چادر کو پھاڑ کر پارہ پارہ کرنے والے تھے، ان لوگوں سے آپ کو کچھ واسطہ اور سروکار نہیں ۔ یہ سب (فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه)  میں داخل ہیں ۔ آپ ان سے بے زاری اور برأت کا اظہار کر کے خدا کے اسی ایک راستہ (صراطِ مستقیم) پر جمے رہیے اور ان کا انجام اللہ کے حوالہ کیجیے۔ وہ ان کو دنیا اور آخرت میں جتلا دے گا جو کچھ دین میں گڑ بڑی کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب «فرقوا دینهم»  کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جو باتیں یقین لانے کی ہیں (اصولِ دین) ان میں فرق نہ چاہیے اور جو کرنے کی ہیں (فروعِ دین) ان کے طریقے کئی ہوں تو برا نہیں ‘‘۔

حاصل یہ ہے کہ اصولِ دین میں اختلاف اور جمہورصحابہ کرام کے منہج سے ہٹنااختلافِ دین اور فرقہ بندی کا سبب ہے، جس کی ممانعت کی گئی ہے، باقی فروعات میں اختلاف مذموم نہیں۔ مزید تفصیل معارف القرآن (مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ)، سورۃ آل عمران، آیت نمبر: 105 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

مختار الصحاح (ص: 238):
"وَ (الْفِرْقَةُ) الطَّائِفَةُ مِنَ النَّاسِ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں