بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نمازوں میں کون سی نماز آقا نے سب سےپہلے اور کہاں ادا فرمائی؟


سوال

فرض نمازوں میں کون سی نماز آقا نے  سب  سے پہلے اور کہاں ادا  فرمائی؟

جواب

واضح رہے کہ اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتداءِ اسلام میں آگیا تھا، تاہم پانچ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر نازل ہوئی۔

معراج سے پہلے  دو  رکعت صبح  (طلوعِ  شمس سے قبل)  ادا کی جاتی تھیں  اور  دو رکعت شام  میں  (غروبِ آفتاب  کے آس پاس وقت میں) ادا کی جاتی تھیں، جب کہ اس کے علاوہ ابتدا میں کچھ عرصے تک قیام اللیل (تہجد کی نماز) بھی فرض تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:   التمهيد ، لابن عبد البر (8/35) ، "فتح الباري" لابن رجب (2 / 104)

اب اگر سائل کا سوال مطلقًا پہلی فرض نماز کے حوالے سے ہے تو چوں کہ نماز معراج سے پہلے بھی فرض تھی، اس اعتبار سے سب سے پہلی نماز کون سی ادا فرمائی؟ اس کی تصریح نہیں مل سکی۔ اور اگر سائل کا سوال معراج میں پنج وقتہ نمازوں کی فرضیت کے بعد پہلی ادا کردہ نماز کے حوالے سے ہے تو  فقہاءِ کرام کے مطابق سفرِ  معراج سے  مکہ واپسی کے بعد سب سے پہلے  رسول اللہ ﷺ نے ظہر  کی نماز ادا  فرمائی۔ 

پنج وقتہ نماز  کی فرضیت  کے بعد اللہ رب العزت نے نماز کا طریقہ اور اوقاتِ نماز کی تعلیم عملی طور پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام دی، جس کے بعد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم دی، اور اپنی طرح نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔  جبرئیل امین نے دو دن آکر رسول اللہ ﷺ کو پنج وقتہ نمازیں پڑھائیں، پہلے دن پانچوں نمازوں کے ابتدائی اوقات  اور دوسرے دن  انتہائی (مستحب) اوقات تعلیم کیے، جبرئیل امین نے پہلی نماز جو رسول اللہ ﷺ کو پڑھائی وہ ظہر کی نماز تھی۔ 

مسلم شریف میں ہے:

"عن عَائِشَةَ رضي الله عنها قالت : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ ".

( صحیح مسلم، 746)

قال الحافظ ابن رجب رحمه الله:

فائدة: ذهب جماعة إلى أنه لم يكن قبل الإسراء صلاة مفروضة، إلا ما وقع الأمر به من صلاة الليل من غير تحديد، وذهب الحربي إلى أن الصلاة كانت مفروضةً ركعتين بالغداة وركعتين بالعشي، وذكر الشافعي عن بعض أهل العلم أن صلاة الليل كانت مفروضةً، ثم نسخت بقوله تعالى: {فَاقْرَأُوا مَا تَيَسَّرَ مِنهَ} [المزمل:20]، فصار الفرض قيام بعض الليل، ثم نسخ ذلك بالصلوات الخمس)". انتهى."

(فتح الباري لابن رجب (554/1)

"البحر الرائق" میں ہے:

"وَ قَدَّمَ الْفَجْرَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ النَّهَارِ أو لِأَنَّهُ لَا خِلَافَ في أَوَّلِهِ وَ لَا آخِرِهِ أو لِأَنَّ أَوَّلَ من صَلَّاهَا آدَم عليه السَّلَامُ حين أُهْبِطَ من الْجَنَّةِ إنما قَدَّمَ الظُّهْرَ في الْجَامِعِ الصَّغِيرِ؛ لِأَنَّهَا أَوَّلُ صَلَاةٍ فُرِضَتْ على النبي صلى اللَّهُ عليه وسلم وَ عَلَى أُمَّتِهِ، كَذَا في غَايَةِ الْبَيَانِ. وَ بِهَذَا انْدَفَعَ السُّؤَالُ الْمَشْهُورُ كَيْفَ تَرَكَ النبي صَلَاةَ الْفَجْرِ صَبِيحَةَ لَيْلَةِ الْإِسْرَاءِ التي اُفْتُرِضَ فيها الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ. و في الْغَايَةِ: إنَّ صَلَاةَ الْفَجْرِ أَوَّلُ الْخَمْسِ في الْوُجُوبِ؛ لِأَنَّ الْفَجْرَ صَبِيحَةُ لَيْلَةِ الْإِسْرَاءِ فَيُحْتَاجُ إلَى الْجَوَابِ عن الْفَجْرِ، وَ أَجَابَ عنه الْعِرَاقِيُّ أَنَّهُ كان نَائِمًا وَقْتَ الصُّبْحِ وَالنَّائِمُ غَيْرُ مُكَلَّفٍ."

(۱/ ۲۴۴، کتاب الصلاة، رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں