بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے ساتھ سنتوں کا حکم


سوال

میں دبئی میں رہائش پذیر ہوں اور ہمارے کمرے میں ایک آدمی سنت نماز پڑتا بھی نہیں اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ سنت نماز نوافل ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے لازمی پڑھنے کے لئے فرمائے ہیں.

جواب

فرض نماز کے ساتھ پڑھی جانے والی سنتیں دو طرح کی ہیں: بعض سنتیں موکدہ ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اہتمام فرمایا ہے اور عذر کی بنا پر ترک کیا ہے، جیسے فجر سے پہلے دو، ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو، مغرب کے بعد دو اور عشا کے بعد دو رکعتیں، یہ بارہ رکعتیں سننِ مؤکدہ ہیں، ان میں سے فجر کی سنتوں کی زیادہ تاکید ہے، ان کے علاوہ باقی سننِ غیرمؤکدہ ہیں، یہ سنت نمازیں بھی حدیث سے ثابت ہیں، اس لیے انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، نیز شریعت کی تعلیم کی رو سے فرض نمازوں کے ساتھ سنتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن فرض کی کوتاہی کی تلافی سنتوں اور نفل نمازوں کے ذریعے ہوگی، سنتوں میں سستی سے آہستہ آہستہ انسان فرض میں بھی سستی کا شکار ہوجاتا ہے. واللہ اعلم مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: نمازِ مسنون از مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ


فتوی نمبر : 143705200024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں