بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دھوکے باز اور دیگر برائیوں میں مبتلا شخص کی امامت کا حکم


سوال

میرے گاؤں میں  ایک  امام صاحب ہیں ۔ان سے پہلے ان کے والد اور دادا بھی امامت کرواتے رہے ہیں ۔ تقریباً 6 سال پہلے ان کے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے امامت سنبھال لی۔ امامت سے پہلے یہ برے کاموں زنا، فراڈ اورجھوٹ وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا تھے،  لیکن امام مسجد بننے کے بعد ان کی زنا کی تو کوئی شکایت نہیں آئی، لیکن کچھ عرصے بعد جھوٹ اور فراڈ کی شکایات آنی شروع ہو گئی ہیں، فراڈ ایسے کہ لوگوں سے غلط بیانی اور دھوکا دہی سے پیسے لیتے رہے، ہر دفعہ گاؤں والوں سے معافی مانگ کر آئندہ غلطی نہ کرنے کے وعدے پر گاؤں والے اس کا قرضہ بھی اتارتے اور امامت بھی برقرار رہتی ۔ 6 سال سے یہی سلسلہ چل رہا ہے ۔ابھی پھر کچھ دنوں پہلے اس نے 8 لاکھ کا ایک بندے سے فراڈ کیا ہےاور چھ دن اس نے امامت بھی نہیں کروائی ۔میں کراچی سے گاؤ ں آیا ہوا ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ اس نے پھر امامت شروع کر دی ہے، آیا ایسے جھوٹے، فراڈی بندے کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے ؟ میں تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ رہا-

جواب

سوال میں مذکورہ احوال اگر واقعۃً صداقت پر مشتمل ہیں، اور مذکورہ امام نے مستقل یہ روش اپنائی ہوٰئی ہے تو ایسا شخص شرعاً امامت کے لائق نہیں، اگر جماعت میں اس سے بہتر شخص امامت کے لائق موجود ہو تو ایسے بد کردار امام کے پیچھے نماز مکروہ ہے،مسجد انتطامیہ پر لازم ہے کہ کسی نیک صالح متبعِ سنت عالمِ دین کو امامت پر مقرر کرے-فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں