فدیہ کب لازم ہوتا ہے اور اس کی کیا مقدار ہے؟
اگر کوئی شخص بہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی بالکل قدرت نہ رکھتاہو یا کسی لا علاج مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے آئندہ پوری زندگی روزہ رکھنے کی قدرت کی امید نہ ہو تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ اپنے روزوں کا فدیہ ادا کرے، جس کی مقدار نصف صاع گیہوں ( ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانک گندم )یا اس کی قیمت ہے ۔
'' (يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم''.(الدر المختار مع رد المحتار:۲؍۷۲- ۷۳، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت)
اسی اگر کسی شخص کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اور ان کی ادائیگی سے پہلے اس کی موت کا وقت آجائے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے ترکے کے تہائی حصے میں سے نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرے، ایک نماز کا فدیہ اور ایک روزے کا فدیہ یکساں(یعنی ایک صدقہ فطر کی مقدار) ہے۔ دن رات میں پانچ فرض نمازوں اور ایک وتر (کل چھ نمازوں) کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200816
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن