بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کس کو دیاجاسکتاہے؟


سوال

زید اپنے مرحوم والد کی طرف سے اپنے مال میں سے ان کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہتا ہے، اس نے حساب کتاب بھی کر لیا ہے، اب یہ رقم غریبوں کو ہی دینا ضروری ہے یا کسی کو (بشمول میت کے اصول وفروع کو) بھی دی جا سکتی ہے؟ بکر کہتا ہے کہ یہ فدیہ دینا چونکہ مرحوم کی وصیت سے نہیں ہے اور زید تبرعا اپنی طرف سے دینا چاہتا ہے تو یہ صدقہ نفلی ہے جس کا ایصال ثواب مرحوم کو کیا جائے گا، لہذا کسی بھی امیر غریب یا اصول وفروع کو دینا جائز ہے۔ ہاں اگر مرحوم کی وصیت ہوتی تو اس کے تہائی مال سے دیا جاتا اور صرف مستحقین کو دیا جاتا۔ مسئلہ کی شرعی تفصیل کیا ہے؟

جواب

اگرمرحوم نے فدیہ کی وصیت کی ہواس صورت میں فدیہ کی ادائیگی واجب ہے۔اگروصیت نہ کی ہواورکوئی وارث اپنے مال میں سے تبرعاً اداکرناچاہے تویہ میت کے ساتھ احسان کامعاملہ ہوگااورمیت کوانشاء اللہ اس کاثواب ملے گا۔تاہم دونوں صورتوں میں فدیہ کی اپنی حیثیت برقراررہے گی،وہ تبرعاً دیا گیا مال فدیہ ہی کے طور پر قبول ہوگا،اورفدیہ انہی لوگوں کودیاجاسکتاہے جوزکوۃ کے مستحق ہوں۔اصول وفروع کو جس طرح زکوۃ نہیں دی جاسکتی اسی طرح فدیہ بھی نہیں دیاجاسکتا۔وارث کی طرف سے ادائیگی اگرچہ نفلی حیثیت سے ہوبایں طورپرکہ اس پرادائیگی لازم نہیں تھی لیکن مصارف کے اعتبارسے مستحق کی شرط برقراررہے گی۔جیساکہ اگرکوئی شخص دوسرے کی جانب سے زکوۃ اداکرتاہے اگرچہ اس کے ساتھ تبر ع ہے لیکن مصارف تبدیل نہیں ہوں گے،زکوۃ مستحق ہی کودی جاسکے گی۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

ومصرف ھذہ الصدقۃ ما ھو مصرف الزکاۃ۔[فتاویٰ ہندیہ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر،جلد: اول،صفحہ:194،مطبوعہ:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143607200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں