بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجرکی نماز کے لیے کوشش کے باوجود آنکھ نہ کھل سکی تو گناہ ہوگا یا نہیں؟


سوال

صبح کی نماز کے لیے کوشش کے بعد بھی آنکھ نہ  کھل سکی، تو گناہ ہوگا کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے، قرآن اور حدیث میں نماز کی اپنے وقت میں ادائیگی کی خصوصی تاکید آئی ہے، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہیے۔

اور اگر کبھی نماز بھول سے یا کوئی عذر لاحق ہوجانے یا سوجانے کی وجہ سے قضا ہوجائے تو جیسے ہی یاد آجائے یا جاگ جائے فوراً قضا کرلینی چاہیے، بشرطیکہ وہ ممنوع وقت نہ ہو، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جو شخص نماز بھول جائے یا اس سے سوجائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ  جب بھی یاد آجائے یا جاگ جائے اسے پڑھ لے‘‘، نیز  حدیث میں نماز سے سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کرنے کے باوجود اتفاقاً آنکھ نہ کھل سکی، یہ یاد رہے کہ تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا انسان کی اپنی کوتاہی اور اسباب اختیار کرنے میں غفلت ہے، لہٰذا اس صورت میں نماز رہ گئی تو گناہِ کبیرہ ہوگا۔

بصورتِ مسئولہ اگر رات میں وقت پر سونے کے ساتھ ساتھ جاگنے کے اسباب (الارم وغیرہ) اختیار کیے گئے، پھر بھی آنکھ نہیں کھل سکی تو اس پر مواخذہ نہیں ہے، البتہ جاگنے کے بعد اگر نماز پڑھنے کے ممنوعہ اوقات میں سے کوئی وقت نہ ہو، پھر بھی نماز نہ پڑھی جائے تو اس بیداری کے بعد غفلت میں گناہ ہوگا، لہٰذا جاگتے وقت نہ ہو تو فورًا قضا نماز پڑھ لی جائے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من نسي صلاةً أو نام عنها فكفارتها أن يصليها إذا ذكرها."

(الصحیح المسلم، ج:1، ص:241، باب قضاء الصلوۃ الفائتة، ط:قدیمی کتب خانه)

تحفۃ الاحوذی میں ہے:

 "حدثَنَا قُتَيْبَةُ حدثَنَا حَمّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ البُنَانِيّ عَن عَبْدِ الله بْنِ رَبَاحٍ (الأنْصَارِيّ) عَنْ أبي قَتَادَةَ قال: "ذَكَرُوا لِلنّبيّ صلى الله عليه وسلم نَوْمَهُمْ عَنِ الصّلاَةِ"؟فَقَالَ: إِنّهُ لَيْسَ فِي النّوْمِ تَفْرِيط، إِنّمَا التّفْرِيطُ فِي اليَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً أَوْ نَامَ عنها فَلْيُصَلّهَا إذَا ذَكَرَهَا.

(ذكروا للنبي صلى الله عليه وسلم نومهم عن الصلاة) روى الترمذي هذا الحديث مختصراً ورواه مسلم مطولاً وذكر قصة نومهم وفيه فمال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الطريق فوضع رأسه ثم قال احفظوا علينا صلاتنا فكان أول من استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم والشمس في ظهره الحديث، وفيه فجعل بعضنا يهمس إلى بعض ما كفارة ما صنعنا بتفريطنا في صلاتنا (فقال إنه) الضمير للشان (ليس في النوم تفريط) أي تقصير ينسب إلى النائم في تأخيره الصلاة (إنما التفريط في اليقظة) أي إنما التفريط يوجد في حالة اليقظة بأن تسبب في النوم قبل أن يغلبه أو في النسيان بأن يتعاطى ما يعلم ترتبه عليه غالباً كلعب الشطرنج فإنه يكون مقصراً حينئذ ويكون آثماً كذا في المرقاة. وقال الشوكاني: ظاهر الحديث أنه لا تفريط في النوم سواء كان قبل دخول وقت الصلاة أو بعده قبل تضييقه، وقيل إنه إذا تعمد النوم قبل تضييق الوقت واتخذ ذلك ذريعة إلى ترك الصلاة لغلبة ظنه أنه لا يستيقظ إلا وقد خرج الوقت كان آثماً، والظاهر أنه لا إثم عليه بالنظر إلى النوم لأن فعله في وقت يباح فعله فيشمله الحديث. وأما إذا نظر إلى التسبب به للترك فلا إشكال في العصيان بذلك، ولا شك في إثم من نام بعد تضييق الوقت لتعلق الخطاب به والنوم مانع من الامتثال والواجب إزالة المانع انتهى."

(تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي ـ بابُ مَا جَاءَ فِي النّوْمِ عَنِ الصّلاَة،ج:1،ص:495،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110201593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں