بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی نماز قضا کرنے والے کی امامت کا حکم


سوال

 جو امام فجر کی نماز قضا  کرتا ہو،کیا   اس کی اقتدا  میں نماز  درست  ہے؟ کیا اس  امام کے  پیچھے  ہماری  نماز  ہوگی؟اور  امام کو امامت کرنے کا حق  حاصل ہے؟

جواب

جو شخص فجر کی نماز قضا کرکے پڑھنے کا عادی ہو ایسے شخص کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، اس کی اقتدا  میں نماز کراہتِ تحریمی  کے  ساتھ ادا ہوجائے گی، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی، چنانچہ   اگر وقت کی تنگی یا کسی عذر کی وجہ سے ایسے امام کے پیچھے نماز  نہ پڑھنے کی صورت میں جماعت کے چھوٹنے کا اندیشہ ہو تو پھر جماعت کی نماز چھوڑنے کے بجائے مجبورًا اسی امام کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے، جماعت ترک نہیں کرنی  چاہیے،، البتہ ایک  متقی امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے پر جتنا ثواب ملتا ہے،  وہ نہیں ملے گا۔ فجر کی نماز مستقل قضا کر کے پڑھنے کا عادی شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔

فتح القدير لكمال بن الهمام (2 / 181):

"( وَيُكْرَهُ ) ( تَقْدِيمُ الْعَبْدِ ) لِأَنَّهُ لَا يَتَفَرَّغُ لِلتَّعَلُّمِ ( وَالْأَعْرَابِيِّ ) لِأَنَّ الْغَالِبَ فِيهِمْ الْجَهْلُ ( وَالْفَاسِقِ ) لِأَنَّهُ لَا يُتَّهَمُ لِأَمْرِ دِينِهِ". 

الفتاوى الهندية (1/ 85):

"وتجوز إمامة الأعرابي والأعمى والعبد، وولد الزنا والفاسق. كذا في الخلاصة إلا أنها تكره. هكذا في المتون".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 560):

" وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلًا عند مالك ورواية عن أحمد".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں