فجر کی قضا نماز میں سنت کے سلسلے میں تفصیل مطلوب ہے، کب سنت ادا کرنی ہے اور کب چھوڑ دینی ہے؟
واضح رہے کہ سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال سے پہلے تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں، اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنتوں کی بھی قضا نہیں ہے، خواہ ان کے ساتھ فرض نماز بھی قضا ہوئی ہو۔اور اگر فجر کی نماز وقت کے اندر ادا کرلی ہو تو فجر کی نماز کے بعد سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک فجر کی سنتیں ادا کرنا مکروہ ہوگا، اگر کسی نے اس وقت ادا کرلیں تو اسے چاہیے کہ اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر زوال کے درمیان وقت میں ان سنتوں کو دہرالے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل.
(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر؛ فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال، وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال، كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده، كما ذكره في الكافي إسماعيل".فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110201432
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن