بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنتوں کی قضا سے متعلق احکام


سوال

مجھے صبح کی سنت کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کردیجیے!

1۔ میں سنتیں اکثر وقت پر پڑھتاہوں ،لیکن کبھی کبھی جماعت کھڑی ہوتی ہے تو اکثر  میں جماعت میں شامل ہوجاتا ہوں، پھر بعد میں پڑھتا ہوں  یا رہ جاتی ہیں۔

2۔اگر نماز بھی  نہیں ملی  تو کیا اس صورت میں سنت پہلے اور بعد میں فرض پڑھیں؟

3۔ نیند کی غلبے کی وجہ سے اگر وقت بھی گزر جاے ، تو اس حالت میں نماز توقضا ہوگئی  ابھی سنت بھی پڑھیں گے؟

 4۔ نماز قضا ہوگئی تو صرف دو رکعت فرض اور دو رکعت اشراق پڑھ لی ،کیا یہ ٹیھک ہے؟

جواب

1۔۔اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہو گئی ہو تو اگر اسے امید ہوکہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر)  فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے، اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے،  اور سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد  صرف فجر سنت قضا کی جاسکتی ہے اور یہ حکم اسی دن کے زوال تک کے لیے ہے،  اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنت کی قضا درست نہیں۔

2۔۔ فجر کی جماعت نکل جائے تو فجر کے وقت کے اندر  نماز پڑھنے کی صورت میں پہلے سنت اور پھر فجر کی فرض نماز ادا کریں، البتہ اگر وقت کم ہو یعنی سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو پھر صرف فرض نماز پڑھ لی جائے۔ اور پھر طلوع کے بعد  مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے پہلے صرف سنتوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔ 

3۔۔ اگر  فجر کی نماز قضا  ہو جائے تو اسی دن زوال سے پہلے قضا کر نے کی صورت میں   فرض کے ساتھ سنتوں کی قضا بھی کرلیں، اور اگراس دن کے زوال کے بعد قضا کر رہے ہیں تو  صرف فرض کی قضا کریں گے، سنت نہیں پڑھیں گے۔

4۔۔ اسی دن زوال سے پہلے قضا کرنے کی صورت میں دو رکعت سنت قضا کی نیت سے پڑھیں اور پھر اس کے بعد فرض کی قضا کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل، 

(قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں