بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنت کی قضا کا ثبوت


سوال

فجر کی سنت کی قضا سنت سے ثابت ہے یا اس  کی حیثیت صرف ایک فتوے کی بنیاد پر ہے؟

جواب

سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک سفر کے دوران اجتماعی طور پر فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی، (جس کا قصہ ’’لیلۃ التعریس‘‘ کے واقعے کے نام سے مشہور ہے) آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فجر کی سنتوں اور فرض نماز دونوں کی قضا کی تھی۔ اسی طرح جامع ترمذی کی روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ جو فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے وہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے۔

چوں کہ سنن کے بارے میں نصوص سے یہ اصول معلوم ہوتاہے کہ سنتوں اور نوافل کی قضا نہ ہو، جب کہ مذکورہ دونوں حدیثوں میں فجر کی سنتوں کی قضا کا ذکر یا حکم ہے، اور ان دونوں روایتوں کو ملایا جائے تو یہ اصول نکلتاہے کہ اسی دن طلوعِ شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے فجر کی سنتوں کی قضا سنت سے ثابت ہے، اسی فقہاءِ احناف نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ 

سنن الترمذي - شاكر + ألباني (2/ 287):
"عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس".

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جس نے فجر کی دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل. 

(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر؛ فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال، وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال، كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده، كما ذكره في الكافي إسماعيل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں