بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی سنت کے حوالے سے چند سوالات


سوال

1) اگر فجر کی نمازمیں اتنا وقت ہوکہ  فرض ہی پڑھ سکتے  ہیں، اگر سنت پڑھیں تو فرض قضا ہونے کا خدشہ ہے تو سنت کب پڑھیں گے ؟

2)  اگر فجر  کی نماز قضاہوگئی ہو تو سنت بھی پڑھنا ضروری ہے؟

3) اگر فجر کی جماعت کھڑی ہوجائے تو سنت کب تک پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

1)  اگر نمازِ فجر  کا اتنا وقت باقی ہو کہ  سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو صرف فرض نماز پڑھ لی جائے۔ اور پھراشراق کا وقت ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے پہلے اسی دن صرف سنتوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔

2 ) سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر  کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں۔

3 )  اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو  بھی سنت نہ چھوڑے۔ البتہ جماعت کی صفوں کو چھوڑ کر پچھلی صفوں میں ستون وغیرہ کی آڑ میں ادا کرے۔  اگر اس کی بھی  امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل.

(قوله: ولايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل".

شرح مشكل الآثار (10/ 322):
"عن أبي عبد الله، قال: حدثنا أبو الدرداء، قال: " إني لأجيء إلى القوم وهم في الصلاة صلاة الفجر، فأصلي ركعتين، ثم أضطم إلى الصفوف۔ " وذلك عندنا -والله أعلم- على ضرورة دعته إلى ذلك، لا على اختيار منه له، ولا على قصد قصد إليه، وهو يقدر على ضده، وهكذا ينبغي أن يمتثل في ركعتي الفجر في المكان الذي يصليان فيه، ولايتجاوز فيهما ما قد رويناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مما صححنا عليه هذه الآثار". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں