بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم چھوٹ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

صبح  کی  آذان  میں  "الصلاة خیرمن النوم" کےالفاظ چھوٹ  جانے سے اذان ہوجاتی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر فجر کی اذان میں "الصلاة خیرمن النوم"  چھوٹ گیا تو اگر اذان کے فوراً  بعد یاد  آگیا  تو  بہتر ہے کہ یہ جملہ  کہہ کر بعد کے کلمات کا اعادہ کرلے،  لیکن اگر دیر سے یاد آیا تو پھر اعادہ نہ کرے،  اذان ہوجائے گی؛ کیوں کہ فجر کی اذان میں "الصلاة خیرمن النوم"  کہنا سنتِ مؤکدہ نہیں،  بلکہ مستحب ہے۔

در مختار میں ہے:

(ويقول:) ندباً (بعد فلاح أذان الفجر: الصلاة خير من النوم مرتين). (باب الاذان، ج: 1، ص: 386، ط: سعيد)

رد محتار میں ہے:

"(قوله: بعد فلاح إلخ) فيه رد على من يقول: إن محله بعد الأذان بتمامه، وهو اختيار الفضلي بحر عن المستصفى". (باب الاذان، ج:1، ص: 387، ط: سعيد)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"سوال: صبح کی اذان میں "الصلوٰۃ خیر من النوم" کہنا یاد نہیں رہا، کیا اذان ہوگئی یا دوبارہ کہی جائے؟

جواب: اذان فجر میں "الصلوٰۃ خیر من النوم" کہنا سنتِ مؤکدہ نہیں ،  بلکہ مندوب ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کے بعد فوراً یاد آگیا تو بہتر ہے کہ یہ جملہ کہہ کر بعد کے کلمات کا اعادہ کرے اور اگر دیر سے علم ہوا تو اعادہ نہ کرے،

قال في شرح التنوير: ويقول ندبًا بعد فلاح أذان الفجر الصلوة خير من النوم ... الخ"  (ج:2، ص: 287، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں