بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر، عصر، مغرب کے بعد سونے کا حکم


سوال

 کیا اسلام میں فجر، عصر اور مغرب کے بعد سونا منع ہے؟

جواب

فجر  کی نماز کے بعد  طلوعِ آفتاب تک اور مغرب کی نماز کے بعد بغیر کسی ضرورت کے سونا مکروہ ہے۔

اور عصر سے مغرب کا وقت بڑا با برکت ہے؛ اس لیے اس وقت کو  ذکر و تلاوت وغیرہ میں صرف کرنا چاہیے،  بلاعذر عصر سے مغرب کے درمیان سونے کا معمول بنالینا اچھا نہیں ہے؛ کیوں کہ ایک تو عصر سے مغرب کے درمیان وقت کم ہونے کی وجہ سے مغرب کی نماز یا جماعت نکلنے کا اندیشہ رہے گا، دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض اطباء بھی اس وقت سونے کو صحت کے  لیے نقصان دہ بتاتے ہیں، اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث اور بعض سلف صالحین سے بھی ممانعت منقول ہے۔

 البتہ کبھی کبھار کسی عذر (بیماری، تھکن یا بے خوابی وغیرہ) کی وجہ سے اگر عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا تقاضہ  ہو تو شرعاً اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مغرب کی نماز سے پہلے بیدار ہونے کی ترتیب بنالی جائے اور بروقت نماز کی ادائیگی کا اہتمام ہو۔

الفتاوى الهندية (5/ 376):

"ويكره النوم في أول النهار وفيما بين المغرب والعشاء".

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار (1/ 10):

"وفيه إباحة النوم بعد العصر وإن كان مكروهًا عند بعض بما روى عن النبي صلى الله عليه وسلم: "من نام بعد العصر فاختلص عقله فلايلومن إلا نفسه"؛ لأن هذا منقطع وحديث أسماء متصل، و يمكن التوفيق بأن نفس النوم بعد العصر مذموم، و أما نوم النبي صلى الله عليه وسلم كان لأجل وحي يوحى إليه، و ليس غيره كمثله فيه، و الذي يؤيد الكراهة قول عمرو بن العاص: النوم منه خرق، و منه خلق، ومنه حمق، يعني: الضحى و القائلة وعند حضور الصلوات؛ و لأن بعد العصر يكون انتشار الجن، و في الرقدة يكون الغفلة، و عن عثمان: "الصبحة تمنع الرزق"، و عن ابن الزبير: "أن الأرض تعج إلى ربها من نومة العلماء بالضحى مخافة الغفلة عليهم"، فندب اجتناب ما فيه الخوف، و الله أعلم".

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں