بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فال کھلوانا


سوال

 مجھے اپنی فال کھلوانی ہے؛ کیوں کہ میرے کپڑے،پیسے،سونا آۓ دن گم ہوجاتا ہے،  میں بہت پریشان ہوں مجھے جاننا ہے کہ کون کرتا ہے یہ سب کچھ میرے ساتھ؟  میری فال کھلوادیں!

جواب

علمِ غیب صرف اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، فال نکلوانا عبث کام ہے، اور اس پر یقین رکھنا گناہ ہے۔عموماً یہ پریشانیاں کسی گناہ یا اللہ تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے یا پھر بطورِ آزمائش آتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:

1- …{مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّه حَیٰوةً طَیِّبَةً} [النحل:۹۷]

ترجمہ:…’’جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کامل ایمان و یقین کے ساتھ نیک عمل، پرسکون زندگی کا سبب ہے،چنانچہ دو چیزوں (ایمان اور اعمال صالحہ) کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ’’حیاۃِ طیبۃ‘‘ یعنی بالطف، عمدہ اور پُر سکون زندگی عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔ عام آدمی بھی یہ آیت پڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہوں یا کوئی ایک نہ ہو تو ’’حیاۃِ طیبہ‘‘ یعنی ’’پُرسکون زندگی‘‘ نصیب نہ ہوگی، بلکہ ’’پریشان زندگی‘‘ ہوگی۔

2- … {وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَه مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُه یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمیٰ} [طه:۱۲۴]

ترجمہ:…’’اور جو شخص میرے ذکر (نصیحت) سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا اور ہم اسے اٹھائیں گے قیامت کے دن نابینا حالت میں‘‘۔

     مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہ کی، بلکہ نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کردیں گے، ظاہری طور پر مال ودولت، منصب وعزت مل بھی جائے تو قلب میں سکون نہیں آنے دیں گے، اس طور پر کہ ہر وقت دنیا کی حرص، ترقی کی فکر او ر کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہے گا۔

3- …{ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ} [الروم:۴۱]

ترجمہ:…’’خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے، تاکہ وہ باز آجائیں‘‘۔

4- …{وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ} [الشوریٰ:۳۰]

ترجمہ:…’’اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے‘‘۔

بہرحال مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ’’ نافرمانی سببِ پریشانی اور فرماں برداری سببِ سکون ہے‘‘۔

لہٰذا فال نکلوانے کی بجائے رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے، اپنے اعمال پر نظرِ ثانی کے ساتھ ساتھ صبح و شام آیۃ الکرسی اور آخری تین قل تین تین مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر اور گھر میں جہاں سامان وغیرہ رکھتے ہیں وہاں پھونک دیجیے، نیز صبح و شام کے مسنون اَذکار کا اہتمام کیجیے، صبح و شام پڑھنے کی کچھ دعائیں ہماری ویب سائٹ کے ’’مسنون دعائیں اور وظائف‘‘ سیکشن میں ’’صبح اور شام کی دعائیں‘‘ کے عنوان کے تحت ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں