بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاریکس ٹریڈنگ کاحکم


سوال

لاہور میں ایک ’’ٹریڈنگ‘‘  کمپنی ہے جو کہ خام تیل سونے اور چاندی کا کاروبار کرتی ہے،  میں اس کمپنی کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں،  لیکن آپ سے مشورہ درکار ہے۔

طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ وہ ہر بندے کا اکاؤنٹ بنا کے اپنا اکاؤنٹ ہولڈر بنا لیتے ہیں، اور پھر اس اکاؤنٹ کے ذریعے ہم نے سونا چاندی خریدنا ہوتا ہے،  ہم پیسے دے دیں گے وہ ہمیں یہ چیزیں دیں گے،  جب ہم دیکھیں گے کہ ان کا ریٹ بڑھ گیا ہے یا ہمیں جب بھی ضرورت ہو تو ہم اسی اکاؤنٹ کے ذریعے ان چیزوں کو فروخت کر دیں گے۔

  مجھے کسی نے کہا تھا کہ جب تک سونے چاندی یا خام تیل کی ملکیت مجھے نہیں ملتی اس وقت تک یہ کام جائز نہیں، کمپنی والے یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنا خریدا ہوا سونا چاندی لینا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو وہ فزیکلی بھی دے سکتے ہیں ۔کیا یہ ٹریڈنگ کا کام جائز ہے؟

جواب

آج کل فاریکس (forex) کے نام سے بین الاقوامی سطح پر ایک کاروبار رائج ہے، اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے، ہمارے علم کے مطابق ’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم کی موجودگی کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

کیوں کہ   ’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ میں اگر سونا ، چاندی اور کرنسی کا کاروبار کیا جائے تو چوں کہ  شریعت نے سونا ،چاندی اور کرنسی کے تبادلے میں چند شرائط عائد کی ہیں، جن میں سے ایک اہم شرط اس معاملے کے دونوں عوضوں پر قبضے کا پایا جانا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ واقعی ایک معاملے کے طور پر انجام دیا جارہا ہے، جس میں معاملہ کنندگان کو دونوں عوض اپنی جگہ مطلوب ہیں۔ فاریکس کے آن لائن کاروبار میں مختلف کرنسیوں کے تبادلے میں عموماً نہ تو کرنسیوں کی حقیقی خرید وفروخت ہی مقصد ہوتی ہے، (بلکہ قیمتوں کے گھٹنے بڑھنے پر ہونے والا فائدہ مطلب ہوتا ہے، جس میں آخر میں فرق برابر کیا جاتا ہے، گو بعض صورتوں میں مطالبے پر سونا، چاندی حوالہ بھی کیا جاتاہو)، اور نہ ہی قبضہ اپنی شرائط کے ساتھ پایا جاتا ہے، اس لیے یہ کاروبار جائز نہیں ہوگا۔

 اور اگر فاریکس ٹریڈنگ میں سونا، چاندی اور کرنسی کے علاوہ دیگر اشیاء کا کاروبار کیا جائے تو بھی چوں کہ اس کاروبار میں عام طور پر خرید و فروخت صرف ایک کاغذی کاروائی ہوتی ہے، خریدی ہوئی اشیاء پر نہ تو قبضہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی قبضہ کرنا مقصود ہوتا ہے، بلکہ محض نفع و نقصان برابر کیا جاتا ہے، گویا صرف سٹہ کھیلنا مقصود ہوتا ہے، ایسی صورت میں خریدی ہوئی چیز کو  واپس بیچنے کی صورت میں ’’بیع قبل القبض‘‘ لازم آتی ہے، جس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے اس لیے فقہاء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

فاریکس ٹریڈنگ کا حکم


فتوی نمبر : 144102200043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں