بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا


سوال

زید  کی بہن بکر  کی بیوی ہے۔ زید نے اپنی بہن یعنی بکر  کی بیوی سے بکر کی ایک سونے کی انگوٹھی کچھ مدت کے لیے لے لی کہ چند دن پہن کے واپس کردوں گا، اور بکر کی بیوی نے اپنے بھائی زید کو بتائے بغیر انگوٹھی بکر کو  دے دی۔ کچھ عرصہ بعد زید نے وہ انگوٹھی بیچ دی اور اپنی بہن یعنی بکر کی بیوی کو جھوٹ بولا کہ مجھ سے گم ہوگئی ہے۔  اب اس صورتِ حال میں زید کے لیے کیا حکم ہے کہ وہ انگوٹھی بکر کو واپس کرے گا یا اپنی بہن کو؟ زید اگر بہن کو سچ بتائے بغیر اپنے لیے معافی مانگے اور وہ معاف کردے تو  کیا زید کے ذمے گناہ باقی رہے گا؟

جواب

انگوٹھی چوں کہ بکر کی ملکیت میں تھی، اس صورت میں اولاً بکر کی اہلیہ کے لیے اپنے شوہر کی مملوکہ چیز ان کی اجازت کے بغیر اپنے بھائی کو دینا جائز نہ تھا؛ کیوں کہ شرعی اعتبار سے کسی کی ملک میں شامل چیز کا اس کی رضامندی کے بغیر استعمال کرنا یا کسی اور کو دے دینا جائز نہیں ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں زید کے لیے سونے کے اسی وزن کی انگوٹھی جواس نے لے کر فروخت کردی تھی واپس کرنا لازم ہے،البتہ بکر کی ضامندی سے انگوٹھی کی قیمت یا قیمت کے برابر کسی اور چیز کے دینےسے بھی حق ادا ہوجائےگا۔اب چاہے  انگوٹھی اپنی بہن کو واپس کرے یا بکر کو دونوں صورتوں میں مالک تک اس کی مملوکہ چیز کا پہنچانا ضروری ہے، نیز دوسرے کے حق میں بلااجازت تصرف کی وجہ سے صاحبِ حق سے معافی بھی لازم ہے۔

چوں کہ سوال میں درج تصریح کے مطابق انگوٹھی بکر کی ملکیت تھی؛ اس لیے اگر زید محض اپنی بہن یعنی بکر کی اہلیہ سےمعافی مانگتا ہے اور بکر کاحق واپس نہیں کرتا تو اس سے بکر کاحق ختم نہیں ہوگا، بلکہ زید کے ذمہ بدستور اس کا حق باقی رہے گا۔البتہ اگر بکراپنی رضاوخوشی سے زید کو معاف کردیتاہے تو اس صورت میں انگوٹھی واپس کرنا لازم نہ ہوگا،  تاہم گناہ کےارتکاب کی وجہ سے توبہ استغفار ضروری ہے۔

نوٹ: سوال میں لکھا ہے : ’’ایک سونے کی انگوٹھی کچھ مدت کے لیے لے لی کہ  چند دن پہن کے واپس کردوں گا‘‘، اس حوالے سے معلوم ہونا چاہیے کہ سونے کا استعمال مرد کے لیے کسی صورت جائز نہیں ہے۔احادیث مبارکہ میں ا س پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ لہٰذا اگر زید نے انگوٹھی لینے کے بعد پہنی بھی تھی تو یہ بھی گناہ تھا، آئندہ اس سے اجتناب کرے، اور جو کوتاہی ہوئی اس پر بھی توبہ و استغفار لازم ہے۔ 

’’شرح المجلۃ‘‘ میں ہے:

’’لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا‘‘. (شرح المجلة، ج:۱، ص:۶۱، مادة: ۹۶، دار الکتب العلمیة، بیروت)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة) مطلقًا". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں