بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وصول شدہ ناجائز کمیشن کا حکم


سوال

کمیشن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں آپ نے تحریر کیا تھا:

’’البتہ وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے مال خریدنے پر مامور ہوں اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، نیز وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے مؤکل (اصل خریدار) سے بطور کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں۔ اسی طرح سرکاری شعبوں میں مخلتف کاموں کے لیے ذمہ داران جو رقم کمیشن کے نام سے وصول کرتے ہیں وہ لینا بھی جائز نہیں‘‘۔

میرا سوال یہ ہے کہ: 

اگر کسی نے زائد رقم وصول کی ہو اور وہ اس پر نادم بھی ہو، اب وہ اس رقم کا کیا کرے؟  اگر ادارہ کو اس بات کی اطلاع کرتا ہے تو نوکری کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اپ سے گزارش ہے راہ نمائی  فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں آئندہ اس قسم کے کمیشن سے اجتناب کے پختہ عزم کے ساتھ  سچے دل سے توبہ کریں، اور مذکورہ رقم کسی بھی عنوان سے مذکورہ ادارہ میں جمع کرا دیں، ذمہ داران کو تفصیل بتانا ضروری نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں