مسلمان کا کسی سکھ کو "بولے سونہال ست سری اکال" کہنا کیسا ہے؟
واضح ہو کہ ہر قوم / مذہب کا ملاقات کے وقت مخصوص الفاظ میں سلام (greeting)کرنے کا جو انداز ہے، اس کی دو حیثیتیں ہیں، ایک اس کے لغوی معنی ہیں جو عام طور پر ملاقات کرنے والے کے لیے دعائیہ کلمات یا اظہارِ ادب یا اظہارِ خوشی پر مشتمل ہوتے ہیں اور دوسری حیثیت ان الفاظ کی قومی شناخت یا مذہبی شناخت کی ہوتی ہے۔ غیر مسلم سمیت کسی مسلمان سے ملتے وقت سلامِ مسنون کے علاوہ ایسے الفاظ استعمال کرنے کی تو گنجائش ہے جو لغوی طور پر صحیح ہوں، (یعنی ان کا معنی درست ہو، اور اس میں غیر شرعی بات نہ ہو، مثلًا کفر پر رضامندی یا کوئی شرکیہ کلمہ وغیرہ) لیکن شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ کسی غیر قوم / مذہب کی شناخت (یا خصوصیت) نہ ہوں۔ پس اگر وہ الفاظ کسی غیر قوم / مذہب کی شناخت یا خصوصیت ہوں تو غیر قوم / مذہب سے مشابہت کی وجہ سے اس کا استعمال ممنوع ہوگا، اگرچہ اس کے لغوی معنی دعائیہ کلمات پر ہی کیوں نہ مشتمل ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں ملاقات کے وقت کسی سِکھ کو "بولے سونہال ست سری اکال" کہنا ممنوع ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
"سوال : ہندوؤں کو نمشکار یا نمستے کہنا کیا ہے؟ بینوا توجروا
جواب : اس کی اجازت نہیں۔
(کیوں کہ یہ مخصوص مذہبی الفاظ ہیں، "ومن تشبه بقوم فهو منهم"، البتہ جو الفاظ مذہبی نہیں ہیں، بلکہ معاشرتی ہیں جیسے آداب ! یا آداب عرض ہے ! ان کی گنجائش ہے۔ حاشیہ از مفتی سعید احمد پالنپوری صاحبؒ) (ج10 / ص 126)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن