بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کو سلام کرنے کا حکم، قرآن پاک کی جن آیات میں غیر مسلم کو سلام کرنے کا ذکر ہے اس سلام کا مطلب کیا ہے؟


سوال

غیر مسلم کو سلام کرنا کیسا ہے؟ مسلم شریف کی ایک حدیث میں غیر مسلم کو سلام کرنے میں پہل کرنے سے ممانعت آئی ہے، جب کہ قرآن کی بعض آیات سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم کو سلام کیا جاسکتا ہے۔ جیسے {فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلٰم}  اور {وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ}.

  سوال یہ ہے کہ کیا غیر مسلم کو سلام کرنے میں صرف پہل کرنے سے روکا گیا ہے۔ یا مطلقاً سلام کی ممانعت ہے؟ اور اگر مطلق سلام کی ممانعت ہے تو ان آیا ت کا کیا جواب ہوگا؟ مہربانی فرما کر ذرا تفصیلی جواب عنایت فرمائیں!

جواب

غیر مسلم کو ابتداءً سلام کے ان الفاظ سے سلام کرنا جائز نہیں ہے جو اہلِ اسلام اور اہلِ جنت کا تحیہ ہے، یعنی مخاطب کو متعین کرکے اسے سلامتی کی دعا دینا اور السلام علیکم کہنا۔ البتہ اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اسے سلام کا جواب دے دینا چاہیے، لیکن جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ پورا نہیں کہا جائے ، بلکہ صرف ’’وعلیک‘‘ کہنے پر اکتفا  کیا جائے ۔ اور اگر غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنا پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اس کا حل بھی موجود ہے، نبی کریم ﷺ نے غیر مسلم حکم رانوں کو والا نامے ارسال فرمائے تھے ان کی ابتدا میں آں حضرت ﷺ نے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘ کے الفاظ تحریر فرمائے،  چناں چہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ عمومی احوال میں غیر مسلموں کو ابتداءً سلام نہ کیا جائے، ہاں اگر کسی موقع پر اس کی ضرورت ہو تو مخاطب کو متعین کیے بغیر عمومی الفاظ میں سلام کے الفاظ کہے جائیں جیسے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘، یعنی اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔  لہٰذا ضرورت کے مواقع پر ابتداءً ان الفاظ میں سلام کرنے کی اجازت ہے۔

یہ حکم تو غیر مسلموں کو سلامِ تحیہ کے حوالے سے ہے، رہی بات کہ قرآنِ مجید کی مذکورہ آیات کا کیا مطلب اور مصداق ہے؟ تو مفسرین حضرات نے فرمایا ہے کہ  قرآنِ پاک میں جن مقامات میں غیر مسلم کو سلام کرنے کا تذکرہ ہے وہاں سلام سے مراد ’’سلامِ تحیۃ ‘‘ (دعائیہ سلام) نہیں ہے، بلکہ اس سلام سے مراد ’’سلامِ متارکہ‘‘ ہے یعنی ہمارا آپس میں کوئی تعلق نہیں،  تم ہم سے محفوظ ہم تم سے محفوظ ہیں۔ یہ ایک محاورہ ہے جس سے فریقین کے درمیان قطع تعلق کا بیان مقصود ہے، اور سلام کے الفاظ سے قطع تعلق اور متارکت میں یہ تربیت بھی مقصود ہے کہ سلامتی کی بات کے ذریعے ان سے جدا ہوجاؤ، نہ کہ لڑ جھگڑ کر، یا کسی اور بد تہذیبی کے ساتھ۔

اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں سلام سے مراد سلام کرنا نہیں، بلکہ سلامتی کی بات کہنا مراد ہے، یعنی جب کفار اعراض کریں، اور اعتراض کریں تو بجائے ان سے جھگڑنے کے ان سے مناسب انداز میں سلامتی کی بات کرکے جدا ہوجانا چاہیے۔ جیساکہ یہ حضرت مجاہد اور مقاتل رحمہما اللہ سے اس طرح کی آیات میں تفسیر منقول ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412):

"فلايسلم ابتداءً على كافر لحديث: «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه». رواه البخاري ... ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد،  (و) لكن (لايزيد على قوله: وعليك)، كما في الخانية.

 (قوله: فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية: وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب، وبه نأخذ.

(قوله: ولكن لايزيد على قوله: وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: "وعليك "، فرد دعاءه عليه. وفي التتارخانية: قال محمد: يقول المسلم: وعليك ينوي بذلك السلام؛ لحديث مرفوع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم»".

التفسير المظهري (8/ 366):

"{فاصفح عنهم} أي فأعرض عن دعوتهم آيساً عن إيمانهم، {وقل سلام} يعنى بيننا وبينكم متاركة تسلمون منا ونسلم منكم {فسوف يعلمون} [الزخرف:89]

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سورہ زخرف کی مذکورہ آیت: 89 کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اور یہ جو فرمایاکہ کہہ دو تم کو سلام کرتاہوں، اس سے مقصد یہ نہیں ہے کہ انہیں السلام علیکم کہا جائے، کیوں کہ کسی غیر مسلم کو ان الفاظ سے سلام کرنا جائز نہیں، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے کہ جب کسی شخص سے قطع تعلق کرنا ہوتاہے تو کہتے ہیں کہ میری طرف سے سلام، یا تمہیں سلام کرتاہوں۔ اس سے حقیقی طور پر سلام کرنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ میں خوب صورتی کے ساتھ تم سے قطع تعلق کرنا چاہتاہوں‘‘. (معارف القرآن، سورہ زخرف، آیت: 89)

سورہ قصص کی آیت: 55 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’امام جصاص نے فرمایا کہ سلام کی دو قسمیں ہیں: ایک سلامِ تحیہ، جو مسلمان باہم ایک دوسرے کو کرتے ہیں،دوسرا سلامِ مسالمت ومتارکت، یعنی اپنے حریف کو یہ کہہ دینا کہ ہم تمہاری لغو بات کا کوئی انتقام تم سے نہیں لیتے۔ یہاں سلام سے یہی دوسرے معنیٰ مراد ہیں۔ (معارف القرآن، سورہ قصص:55)

سورہ فرقان میں عباد الرحمٰن کی صفات کے ضمن میں یہ صفت بھی ہے کہ {وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰماً} [الفرقان:63] اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:

’’تیسری صفت: یعنی جب جہالت والے ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: سلام۔ یہاں جاہلوں کا ترجمہ جہالت والوں سے کرکے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مراد اس سے بے علم آدمی نہیں، بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے، خواہ وہ واقع میں ذی علم بھی ہو۔ اور لفظِ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں، بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں، بلکہ تسلم سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں، جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گناہ گار نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد، مقاتل وغیرہ سے منقول ہے۔ (مظہری)

حاصل یہ ہے کہ بے وقوف جاہلانہ باتیں کرنے والوں سے یہ حضرات انتقامی معاملہ نہیں کرتے، بلکہ ان سے در گزر کرتے ہیں‘‘. (معارف القرآن، الفرقان:63) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں