بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ملک میں خلع


سوال

شوہر وقتاً فوقتاً اس بات کا اعادہ  کرتاہے کہ  میں تمہیں طلاق دے دوں گا کہ شریعت نے مجھے اس کا حق دیا ہے۔ اس صورت میں پریشان ہو کر بیوی خلع کا مطالبہ کرے،  اس پر بھی اگر شوہر خلع دینے پر بھی رضامند نہ ہو تو عورت کیا کرے ؟  چوں کہ ہم غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں،  جہاں پر شرعی پنچایت یا شرعی کورٹ کا تصور بھی نہیں۔ مقامی قوانین کے مطابق خلع یا طلاق لینا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟یا پھر دوسری صورت ہو تو راہ نمائی فرمائیں ، چوں کہ خلع ناگزیر ہوگئی ہے!

جواب

شوہر کا وقتاً فوقتاً اس بات کا اعادہ کرنا اور ڈرانا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا کہ شریعت نے مجھے اس کا حق دیا ہے، بہت ہی نامناسب رویہ ہے، تاہم اس جملہ سے طلاق نہیں ہوئی۔

اولاً یہی کوشش کی جائے کہ زوجین باہم موافقت پیدا کرکے خوش گوار  ازدواجی زندگی گزاریں،  شدید مجبوری اور کسی غیر معمولی پریشانی کے بغیر علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔اور اگر  نباہ مشکل ہو تو شوہر کو  طلاق دینے یا خلع کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور اس کام کے لیے دونوں جانب سے ایک ایک دو  دو آدمی مل بیٹھ  کر معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر موافقت پیدا ہونے کی امید نہ ہو اور درمیانی لوگ بھی یہ طے کریں کہ باہم طلاق کا معاملہ ہو جانا چاہیے تو پھر شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کیا جائے،  اگر تیار نہ ہو تو خلع کا معاملہ کیا جائے یعنی معافی مہر کے ساتھ علیحدگی ہو جائے اس پر بھی تیار نہ ہو تو نقد وغیرہ کی پیش کش کی جائے یا دباوٴ اور اصرار کیا جائے، بہرحال شوہر کا طلاق دینا یا خلع پر تیار ہونا رشتہ نکاح ختم ہونے کے لیے ضروری ہے۔

اگر وہاں نہ مسلم کورٹ ہے اور نہ ہی باقاعدہ مسلمانوں کی کوئی ایسی جماعت ہے جو مسلمانوں کے فیصلے کرتی ہو  اور شوہر  نہ طلاق پر راضی ہو اور نہ خلع پر، تو پھر حل یہ ہے کہ وہاں چند دین دار مسلمانوں پر مشتمل ایک پنچائیت بناکر (جس میں کوئی مستند عالم بھی ہو، یا وہ پنچائیت کسی مستند عالم سے مسلسل رابطے میں رہے اور اپنے ہر فیصلے میں ان سے مشاورت کرکے شریعت کے مطابق فیصلہ کرے) اس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا جائے، وہ شوہر کو طلب کرکے فیصلہ دے. اگر شوہر نان و نفقہ مسلسل دیتاہے، اور مار پٹائی نہیں کرتا تو اس جماعت کو خلع کی طرح، اس کی رضامندی کے بغیر طلاق واقع کرنے کا حق نہیں ہوگا، تاہم اگر شوہر نان نفقہ وغیرہ حقوق نہیں ادا کرتا تو مذکورہ جماعت کو تنسیخِ نکاح/ طلاق واقع کرنے کا حق ہوگا؛ لہٰذا اگر شوہر کسی بات پر آمادہ نہ ہو تو یہ جماعت عورت پر طلاق واقع کردے، اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

جو جماعت فیصلہ کرے ان حضرات کو چاہیے کہ اس سلسلے کی تمام قیود اور شرائط کتاب " الحیلۃ الناجزہ" سے معلوم کرکے فیصلہ کرے اور ارکانِ جماعت کم از کم تین ہوں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں