بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر قانونی طریقہ سے مال منگوانا، اس کے لیے رشوت دینا اور اس کی آمدنی کا حکم


سوال

1-  ہم کوموڈٹی کے کاروبار کی بروکری کرتے ہیں اور بعض چیزوں کی در آمد پاکستان میں بند ہے تو ان چیزوں کو ہم افغان ٹرانزٹ کے ذریعہ منگواتے ہیں، وہ اشیاء ایسی ہیں جو حیوانات کے استعمال کی ہوتی ہیں اور اس مال کو کلیئر کرانے کے لیے بعض اوقات کچھ  پیسہ دینے پڑتے ہیں، آیا خریدار کا ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

2- بطور بروکر ہماری اس مذکورہ معاملہ کی کمائی کا کیا حکم ہے؟ اور خریدار کی کمائی کا کیا حکم ہے؟

3- پاکستان میں جس چیز کی در آمد بند ہواس کو کلیئر ایجنٹ سے سیٹنگ کرواکے کچھ پیسہ دے کر چھڑوانا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

1- مفادِ عامہ  کی خاطر اگر حکومتی سطح پر جائز اشیاء  کی اسمگلنگ ممنوع ہو تو  اس سے اجتناب  کیا جائے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا چاہیے؛  اس طرح کے جائز امور  سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، اور معاہدے کی خلاف ورزی سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا شرعاً ضروری ہے۔ اور اس کو کلئیر کرانے کے لیے رقم دینا رشوت ہے جو ناجائز اور حرام ہے، البتہ  جائز اشیاء   کی اسمگلنگ سے جو  نفع  حاصل  ہو گا،  وہ حرام نہیں ہو گا۔

2۔۔ اگر وہ چیزیں حرام نہ ہو تو ان کی بروکری کی آمدنی لینا جائز ہے۔

3۔۔ اس کا جواب پہلے سوال کے ضمن میں آگیا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں