اگر کوئی شخص اپنے مرے ہوئے بچے کی قسم کھائے کہ فلاں کام نہیں کروں گا اور بعد میں اس سے ہو جائے، اس کے لیے کیا حکم ہے?
بلاضرورت قسم کھانا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر کوئی ضرورت یا مجبوری ہو تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذاتی یا صفاتی نام کی ہی قسم اٹھانا جائز ہے، غیراللہ کی قسم کھانا درست نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع کیا گیا ہے، اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم اٹھا لے تو وہ قسم درست ہی نہیں ہوتی اور ایسی قسم توڑنے کی صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا، تاہم غیر اللہ کی قسم کھانے پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 712):
"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة).
(قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200458
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن