بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غیبت سے متعلق چند احکام


سوال

زید کو غیبت کا شرعی طور پر علم نہیں ہے کہ یہ عمل حقوق العباد سے بھی تعلق رکھتا ہے، اب اگر زید سے غیبت ہوجائے تو وہ شرعی طور پر معذور سمجھا جائے گا یا نہیں؟  نیز زید نے جس بندے کی غیبت کی ہے، اس بندے کو معلوم نہیں ہے کہ زید نے اس کی غیبت کی ہے،  اب زید کو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے؟ اور جن بندوں کی زید نے غیبت کی ہے، اگر وہ فوت ہوگئے ہوں تو زید کے لیے کیا حکم ہے؟ 

جواب

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کی عزت پر حرف گیری کرنے کو بدترین سود قرار دیا ہے، نیز غیبت کو زنا سے بھی بدتر فرمایا گیا ہے۔ اس گناہ کی بہت سی وعیدیں احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں، اور عقلی طور پر بھی کسی کی برائی وبدخواہی، اور اس کی تحقیر جائز نہیں ہے، اور غیبت میں یہ سب برائیاں پائی جاتی ہیں، بہرحال ایک اسلامی ملک میں رہتے ہوئے دین کے بنیادی اَحکام سے ناواقف ہونا شرعاً عذر نہیں،  لہذا غیبت کا گناہ اور حقوق العباد کے ساتھ تعلق معلوم نہ ہو  تب بھی غیبت کا گناہ ہوگا اور شرعاً یہ عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔

جن لوگوں کی غیبت کی ہے، اگر انہیں غیبت کا علم نہ ہو تو ان سے معافی مانگنا شرعاً واجب نہیں، صرف اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنا کافی ہوگا۔  نیز  اگر ان کا انتقال ہوچکا تو ان کے لیے استغفار کرنے سے امید ہے کہ آخرت میں غیبت کرنے والے کی گرفت نہ ہوگی۔ 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔
 عَنْ أَنَسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِنَّ مِنْ كَفَّارَةِ الْغِيبَةِ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِمَنِ اغْتَبْتَهُ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُ» ". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي " الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ". (مشكاة المصابيح، رقم الحديث: ٤٨٧٧) 

"وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا إِذَا لَمْ تَصِلِ الْغَيْبَةُ إِلَيْهِ، وَأَمَّا إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْهِ فَلَا بُدَّ مِنَ الِاسْتِحْلَالِ بِأَنْ يُخْبِرَ صَاحِبَهَا بِمَا قَالَ فِيهِ وَيَتَحَلَّلَهَا مِنْهُ، فَإِنْ تَعَذَّرَ ذَلِكَ فَلْيَعْزِمْ عَلَى أَنَّهُ مَتَى وَجَدَهُ تَحَلَّلَ مِنْهُ، فَإِذَا حَلَّلَهُ سَقَطَ عَنْهُ مَا وَجَبَ عَلَيْهِ لَهُ مِنَ الْحَقِّ، فَإِنْ عَجَزَ عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ بِأَنْ كَانَ صَاحِبُ الْغِيبَةِ مَيِّتًا أَوْ غَائِبًا، فَلْيَسْتَغْفِرِ اللَّهَ تَعَالَى، وَالْمَرْجُوُّ مِنْ فَضْلِهِ وَكَرَمِهِ أَنْ يُرْضِيَ خَصْمَهُ مِنْ إِحْسَانِهِ، فَإِنَّهُ جَوَّادٌ كَرِيمٌ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ. (مرقاة المفايتح: ٧/ ٣٠٥٨) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں