بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غلطی کرنے والے کی اصلاح کے لیے اسے ٹوکنا


سوال

اگر کوئی شخص غلطی سرعام کررہاہے تو کیا اس کو سرعام ہی ٹوکا جائے گا یا  اکیلے میں ?  

جواب

کسی غلطی کی اصؒلاح میں بھی ہمیں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اپنانا چاہیے، آپ ﷺ  جہاں ضرورت سمجھتے عام مجلس مٰیں بھی غلطی کی اصلاح فرماتے ، لیکن اس کے لیے  عموماً غلطی کرنے والے کو براہِ راست مخاطب کرنے کے بجائے عمومی وضاحت پر اکتفا کرتے۔
مثلاً: ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کی اصلاح کرتے ہوئے جو نماز کے دوران آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، ارشاد فرمایا: " کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں؟" حضور علیہ السلام نے اس بارے میں سختی سے تنبیہہ فرمائی، حتیٰ کہ ارشاد فرمایا:" وہ ضرور بضرور اس حرکت سے باز آجائیں، ورنہ ان کی آنکھیں چھین لی جائیں گی"۔ (صحیح البخاری، کتاب لاذان، باب رفع النصرا لی السماء فی الصلاۃ، ح750)

درحقیقت دعوت و اصلاح  کا تعلق حکمت ، خیرخواہی اور اخلاص سے ہے، یہ  بنیادی اصول ہیں، اصلاح کی جو بات یا تحریک ان اصولوں پر مبنی ہوگی اس پر اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ درست نتائج اور مقاصد کے حصول کی توقع کی جانی چاہیے۔  خلاصہ یہ کہ غلطی کی نوعیت اور شخصیت کے فرق سے اصلاح کی صورت مختلف ہوسکتی ہے، ایک ہی غلطی دو مختلف حیثیت کے افراد سے ہو تو اصلاح کا طرز  تبدیل ہوسکتاہے، اور ایک ہی شخص سے دو مختلف حیثیت کی غلطیاں سرزد ہوں تو بھی اصلاح کے طریقے میں معاملے کی نزاکت کا لحاظ ضروری ہے۔ حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہر شخص کے سرِ عام غلطی کی اصلاح سرِ عام ہی کی جائے یا اکیلے میں۔ اصول وہی  ہیں کہ جس صورت میں غلطی کرنے والے یا اسے دیکھ کر متاثر ہونے والوں کی خیرخواہی زیادہ ہو اور جو صورت قرینِ حکمت ہو، اُسے اختیار کیا جائے، اور نفس کی آمیزش، دوسرے کی تحقیر یا اپنی بڑائی وغیرہ کے فاسد جذبات سے  پاک ہوکر خلوصِ دل سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ 

مثلاً اگر کوئی بڑا کسی چھوٹے کی اصلاح کرے اور وہ مناسب سمجھے کہ برسرِ عام اصلاح زیادہ مفید رہے گی، یا کوئی متقی، پرہیزگار عالمِ دین کسی صاحبِ اقتدار  کی غلطی پر سرِعام اس کی اصلاح کرے تو اس کی اجازت ہوگی۔تاہم اصلاح کے لیے شائستہ اسلوب اختیار کیا جائے؛ تاکہ اصلاح نافع ہو۔ موقع محل دیکھ کر مصلحت سے سمجھانا، دعوت دینا اور اصلاح کرنا قرآن کا حکم ہے۔ حدیث میں ہے کہ مؤمن مؤمن کا آئینہ ہے۔ علماء نے اس حدیث کے تحت یہ فائدہ بھی لکھا ہے کہ جیسے آئینہ انسان کے چہرے پر موجود عیب دکھاتا ضرور ہے، لیکن خاموشی سے دکھادیتاہے کہ سوائے دیکھنے والے کے کسی کو نہیں پتا چلتا کہ آئینہ نے کوئی عیب بھی بتایا ہے، اسی طرح مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے، اگر وہ اس میں عیب دیکھے تو اصلاح ضرور کرتاہے، لیکن اس انداز میں کہ فضیحت نہ ہو۔

ہمارے اکابر میں سے بعض کا قول ہے : جو حق بات، حق نیت سے، حق طریقے سے بیان کی جائے ان شاء اللہ وہ ضرور اثر کرتی ہے، اس لیے اصلاح کے طالبوں کو چاہیے کہ مذکورہ تینوں شرائط ملحوظ رکھیں، تاکہ نصیحت میں اثر پیدا ہو، یعنی (1)بات حق ہو۔ (2) نیت، اخلاص کے ساتھ خیر خواہی ہو، کسی کی تحقیر وتذلیل وغیرہ نہ ہو۔ (3) حق طریقے سے یعنی مصلحت کے ساتھ  کہی جائے۔ ان شرائط کی رعایت رکھتی ہوئے نصیحت کی جائے تو آج نہیں، کسی نہ کسی دن اس کا اثر ضرور ظاہر ہوگا اور بار آور ہوکر رہے گی۔ بصورتِ دیگر نصیحت بجائے اصلاح کے عموماً  ضد کا باعث بن جاتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں