بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلطی سے کسی عورت کو بیوی سمجھ کر صحبت کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص  نے مجھ پر درج ذیل مسئلے کے حوالے سے  اعتراض  کیاہے ، اس مسئلے کی تفصیل درکار ہے:

" کسی نے اپنی بیوی سمجھ کر ”غلطی“ سے کسی غیر عورت سے صحبت  کی  ،  تو اس کو بھی مہر مثل دینا پڑے گا اور صحبت کو "زنا" نہ کہیں گے، نہ کچھ گناہ ہوگا، نہ ہی کوئی حد ہوگی، بلکہ اگر حمل رہ گیا تو اس لڑکے کا نسب بھی ٹھیک ہے، اس کے نسب میں کچھ دھبہ نہیں ہے، اور اس کو حرامی کہنا درست نہیں ہے، اور جب معلوم ہوگیا کہ یہ میری عورت نہ تھی تو اب اس عورت سے الگ رہے، اب صحبت کرنا درست نہیں، اور اس عورت کو بھی عدت بیٹھنا واجب ہے، اب بغیر عدت پوری کیے اپنے میاں کے پاس رہنا اور میاں کا صحبت کرنا درست نہیں"۔ (بہشتی زیور : ص ۲۰۸ : ط دارالاشاعت اسلامیہ کولکاتا : چوتھا حصہ ، مہر کا بیان ، مسئلہ نمبر ١۶)

جواب

"شبہ" کبھی محل، کبھی عقد اورفعل میں ہوتا ہے،تینوں کے احکام مختصراً درج ذیل ہیں:

۱۔جو بچہ محل یا عقد کے شبہ میں وطی کے نتیجے میں پیدا ہو وہ واطی سے ثابت النسب کہلائے گا  جب کہ  واطی اس کے نسب کا دعوی کرے۔

۲۔اگر وطی فعل کے شبہ  کی بنا پر ہو تو اولادغیر صحیح النسب کہلائے گی، مگر یہ  کہ کوئی شبِ زفاف میں اپنی  حقیقی زوجہ کے گمان میں کسی اجنبیہ  سے وطی کرلے، جب کہ اسے باور کرایا گیا ہو کہ وہ اس کی حقیقی زوجہ ہے۔

یہی شبہ کی بنا پروطی کے احکام کا حاصل ہے۔سائل کوبہشتی زیور  کی عبارت پر کس نوع کااعتراض ہے، اس کی نوعیت واضح کرنی چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں