بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غلطی سے بیلنس آجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر غلطی سے بیلنس آجائے تو کیا حکم ہے؟

جواب

غلطی سے بیلنس آجانے کی صورت میں اولاً تو پوری کوشش کی جائے کہ جس کی طرف سے غلطی سے بیلنس آیا ہے اسے بیلنس یا رقم پہنچا دی جائے، البتہ اگر کسی طرح بھی یہ بیلنس اس کے مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو،  بیلنس بھیجنے والے کا علم بھی نہ ہو، اور   تلاش وتحقیق کے بعد بھی معلوم نہ ہورہا تو جتنی رقم بیلنس کی صورت میں  غلطی سے   آپ کے پاس  آگئی ہے اتنی رقم اس کے مالک کی طرف سے صدقہ کردیں، پھر یہ بیلنس آپ  کے لیے استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' (عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله)، هذا مذهب أصحابنا لا نعلم بينهم خلافاً''۔

'' (قوله: جهل أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم''.(4/283، کتاب اللقطۃ، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں