بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلط تلاوت کرنے والے صحیح آدمی کے پیچھے اس معذور شخص کا اقتدا کرنا جو صحیح تلاوت کر سکتا ہو


سوال

غلط تلاوت کرنے والے صحیح آدمی کے پیچھے اس معذور شخص کی اقتدا جو صحیح تلاوت کر سکتے ہیں، کیا یہ اقتدا صحیح ہے؟

جواب

اگر معذور سے مراد ایسا آدمی ہے جو رکوع و سجود پر قادر نہ ہو  تو ایسا معذور کسی صحیح آدمی کی امامت نہیں کر سکتا اور اس کی اقتدا میں صحیح آدمی کی نماز درست نہیں ہو گی۔

نیز غلط تلاوت کرنے سے مراد اگر  ایسی غلطی ہے جو فحش ہو اور مفسدِ صلاۃ ہو تو ایسے امام کے پیچھے قاری کی نماز درست نہیں ہو گی۔

لہذا اگر کسی جگہ ایسے دو آدمی ہوں جن میں سے ایک معذور ہو اور دوسرا صحیح تلاوت نہ کر سکتا ہو تو ان دونوں کو چاہیے کہ کسی تیسرے آدمی کی اقتدا  میں نماز پڑھیں جو  تلاوت بھی صحیح کرتا ہو اور معذور بھی نہ ہو، اگر ایسا کوئی شخص نہ ہو تو اپنی اپنی نماز ادا کر لیں،  ان دونوں کا ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز ادا کرنا درست نہیں۔

اور اگر معذور سے مراد شرعی معذور ہے اور غلط خواں سے مراد اتنی فاش غلطی ہے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے تو بھی مذکورہ حکم ہی ہے۔ 

واضح رہے کہ شرعی معذور سے مراد وہ شخص ہے  جس کو وضو توڑنے کے اسباب میں سے کوئی سبب (مثلاً ریح،خون ، قطرہ وغیرہ) مسلسل پیش آتا رہتا ہو  اور ایک نماز کے مکمل وقت میں اس کو اتنا وقت بھی نہ ملتا ہو کہ وہ با وضو ہو کر وقتی فرض ادا کر سکے۔ ایسے آدمی کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر فرض نماز کے وقت نیا وضو کرے اور اس وقت میں اس وضو سے جس قدر نمازیں پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 84):
"ويجوز اقتداء المعذور بالمعذور إن اتحد عذرهما، وإن اختلف فلايجوز، كذا في التبيين. فلايجوز أن يصلي من به انفلات ريح خلف من به سلس البول، كذا في البحر الرائق".

الفتاوى الهندية (1/ 85):
"ويصح اقتداء القائم بالقاعد الذي يركع ويسجد لا اقتداء الراكع والساجد بالمومئ".

الفتاوى الهندية (1/ 85):
"وإمامة الأمي قومًا أميين جائزة، كذا في السراجية".

الفتاوى الهندية (1/ 86):
"ولايصح اقتداء القارئ بالأمي".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں