بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غلام رسول نام رکھنا


سوال

’’غلام رسول‘‘  نام کا کیا مطلب ہے؟ اور یہ نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ لفظِ ’’غلام‘‘  'بندہ' کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور ’’فدا ہونے والا‘‘  کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔  نیز عربی زبان میں ’’بندہ‘‘  کے لیے ’’غلام‘‘  اور ’’عبد‘‘  دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں اوراحادیثِ مبارکہ سے لفظِ ’’عبد‘‘  (یعنی ’’بندہ‘‘  کا معنی)  اللہ کے علاوہ کسی کے ساتھ جوڑ کر نام رکھنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں ’’غلام رسول‘‘  نام رکھنے میں اگرچہ عام طور پر ’’رسول اللہ پر فدا ہونے والا‘‘ معنی ملحوظ ہوتا ہے، اس اعتبار سے اس نام کی گنجائش تو ہوسکتی ہے، لیکن لفظِ ’’غلام‘‘  میں بندگی کا معنی ہونے کی وجہ سے ’’رسول کا بندہ‘‘  ہونے کا بھی اشتباہ آجاتا ہے۔ اس اشتباہ کے پیشِ نظر بہتر یہ ہے کہ کوئی اور اچھا نام رکھ لیا جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2997):
"وروى الحاكم في الكنى، والطبراني عن أبي زهير الثقفي مرفوعًا: "إذا سميتم فعبدوا" أي: انسبوا عبوديتهم إلى أسماء الله، فيشمل عبد الرحيم، وعبد الملك وغيرهما. ولايجوز نحو عبدالحارث ولا عبد النبي، ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس".

فيض القدير (1 / 385):
"(إذا سميتم فعبدوا) بالتشديد بضبط المصنف: أي إذا أردتم تسمية نحو ولد أو خادم فسموه بما فيه عبودية لله تعالى كعبد الله وعبد الرحمن؛ لأن التعليق بين العبد وربه إنما هو العبودية المحضة، والاسم مقتض لمسماه، فيكون عبد الله، وقد عبده بما في اسم الله من معنى الإلهية التي يستحيل كونها لغيره".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں