بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق کا حکم


سوال

میں ایک شدید ترین غصے کا مریض ہوں، میرا کاروبار بھی بہت خراب چل رہا ہے، کچھ دن پہلے مجھے پندرہ دن تک نیند بھی نہیں آئی؛ کیوں کہ میں سو تو جاتا تھا، مگر میرا دماغ جاگتا رہتا اور اندر ہی اندر میں کاروبار کے مسائل میں الجھا رہتا، اس دن میرے گھر پر میری دو سالیاں آ ئی ہوئی تھیں اور میری ساس میرے ساتھ ہی رہتی ہیں، اس رات کو میں نے ایک نیند کی گولی پینکس کھائی تھی، جیسے ہی میں نے گولی کھائی اور بستر پر لیٹا میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہو گیا، جس میں میری سالیاں بھی بیچ میں آگئیں اور بیچ بچاؤ کرنے لگیں، اتنے میں اچانک اس کمرے میں میری ساس داخل ہوئی اور مجھے پتا نہیں کہ مجھے کیا کہا، مگر اس وقت مجھے ایسا غصہ آیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو طلاق دے دی اور اپنی ساس کو بے حساب گالیاں بکنا شروع ہو گیا اور گھر سے نیچے بھاگ گیا اور رونا دھونا شروع ہوگیا، نہ میری بیوی مجھ سے طلاق چاہتی تھی، نہ میں اس کو چھوڑنا چاہتا تھا، بس اچانک ہی یہ ہو گیا، حضرت میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ویسے بھی نارملی مجھے بہت جلدی غصہ آجاتا ہے اور لوگوں کو میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالیاں دینا شروع کردیتا تھا،جس پر  مجھے بعد میں پشیمانی بھی بہت ہوتی ہے۔

جواب

اگر کسی شخص کی غصہ یا بیماری کی وجہ سے ایسی کیفیت ہوجائے  کہ اس کو ہوش نہ رہے اور وہ اچھی بری باتوں میں  تمیز نہ کرسکے،  بیوی، ماں اور بہن میں تمیز اور فرق کی صلاحیت ختم ہوجائے  اور وہ   نفع  و نقصان کو نہ سمجھ سکے، اس کو یہ کیفیت اس سے پہلے بھی متعدد بار پیش آئی ہو  اور لوگوں میں اس کی یہ کیفیت معروف و مشہور ہو  اور اس نے ایسی حالت میں طلاق دی ہو  تو وہ  طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگر  طلاق دیتے وقت اس کی ایسی حالت نہ ہو  جیسا کہ  ماقبل میں ذکر ہوا تو پھر ایسے شخص کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

          صورتِ مسئولہ  میں آپ  کے بیان سے یہ واضح ہورہا ہے  کہ  طلاق دیتے وقت آپ کی  ایسی کیفیت نہیں تھی کہ   جس سے  آپ  بیوی اور ماں، بہن میں فرق نہ کرسکتے ہوں، نہ ہی  آپ میں نفع و نقصان کے درمیان تمییز کی صلاحیت ختم ہوئی تھی، بلکہ  آپ  کو  طلاق   کے الفاظ   بولتے وقت کے واقعات اور  اس وقت  ہونے والی گفتگو کا بھی علم ہے  اور آپ نے دو صریح طلاقیں دی ہیں تو اس سے آپ کی بیوی  پر دو طلاقیں واقع ہوگئی  ہیں، اب ایک طلاق کا حق باقی ہے، بیوی کی  عدت میں آپ کو رجوع کا حق حاصل ہے، بیوی کی عدت میں زبانی رجوع یا بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو نکاح برقرار رہے گا اور اگر عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گررتے ہی  نکاح ختم ہوجائے گا، اس کےبعد اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے ساتھ دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید ِنکاح کرنا ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں