بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غصہ میں ’’چلی جا‘‘ اور ’’تو آزاد ہے‘‘ کہنے کا حکم


سوال

غصہ میں کہا ’’جا چلی جا‘‘ پھر کہا ’’تو آزاد ہے‘‘ کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو  غصہ میں کہا:  "چلی جا" تو  اگر اس نے اس جملہ سے طلاق کی نیت کی ہو تو ایک طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی، اگر طلاق کی نیت نہ کی ہو تو اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

پھر جب اس نے کہا تو  آزاد ہے تو اگر پہلے جملے سے طلاق کی نیت کی تھی تو  چوں کہ ایک طلاق بائن پہلے ہی واقع ہو چکی ہے تو اس جملہ سے دوسری طلاقِ بائن واقع  نہیں ہو گی، اور اگر پہلے جملے سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو اس جملہ سے بغیر نیت کے بھی ایک طلاقِ بائن واقع  ہو جائے گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی ہے، نکاح ختم ہو گیا، ساتھ رہنے کے  لیے نئے مہر کے ساتھ گواہان کی موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہو گا، آئندہ کے لیے  دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 301):

"فالحالات ثلاث: رضا و غضب و مذاكرة و الكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردًّا ... (و في الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247):

"(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں