بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شدید غصے میں طلاق


سوال

میں جوانٹ فیملی میں رہتا ہوں، میری بیوی کو یہ پسند نہیں، لڑائی ہوتی رہتی ہے، میری بیوی اور ابو  کی لڑائی ہوئی دونوں آدھے  گھنٹے  بحث کرتے رہے، میں منع کرتا رہا اور ہوش میں ایک طلاق دی،  لیکن بیوی نہ رکی اور اس نے ابو پر ہاتھ اٹھایا تو مٰیں پاگل ہوگیا اور کچھ مارنے کو ڈھونڈنے لگا اور 3،4 دفعہ طلاق دی،  میں بہت غصہ میں تھا، مجھ کو غصہ میں نفع نقصان کا فرق نہیں ہوتا، کیا یہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

جواب

طلاق عموماً  غصہ کی ہی حالت میں دی جاتی ہے، اور غصہ  کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ  تین طلاقیں دے دے تو تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، اور بیوی شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوگی۔

 ارشادِ ربانی ہے:

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

ترجمہ:اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)

   الفتاوى الهندية  (1/ 473):
"وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".

فتاوی شامی میں ہے :

" قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ  ملخصاً من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش". (3/244) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں